سابق سعودی وزیر مملکت ڈاکٹر سعود المتحمی کا کہنا ہے کہ ’محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ زندگی کے ابتدائی ادوار اس قدر سخت تھے کہ سکول میں بسکٹ کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔‘
’انتہائی مشکل حالات میں بھی ہمت نہ ہاری ٹیکسی بھی چلائی مگر تعلیم جاری رکھی۔‘
مزید پڑھیں
-
سیاحت 2030 تک تیل کے برابر بڑا شعبہ بن جائے گا: سعودی وزیرNode ID: 889705
الاخباریہ ٹی وی کے پروگرام ’الراصد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر المتحمی کا کہنا تھا ’بچپن میں کبھی یہ سوچا بلکہ یہ خیال ذہن کے کسی گوشے میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن وزیر بنوں گا۔‘
انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام کے بارے میں بتایا ’والد کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب بہت چھوٹا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ والد کی شفقت کیسی ہوتی ہے۔ لفظ یتیم کے معنی بھی نہیں معلوم تھے کہ یہ کیا ہوتا ہے۔‘
’دادی نے میری پرورش کی ان کے زیر سایہ پروان چڑھا۔ اکثربریک ٹائم میں سکول کے ساتھیوں کو بسکٹ وغیرہ کھاتے دیکھتا تھا۔ اس وقت میرا بھی بہت دل کرتا تھا مگر پیسے نہ ہونے وجہ سے اپنی خواہش کو دبا لیتا۔‘
اپنی ماضی کے بارے میں انہوں نے مزید بتایا ’ہمارے زمانے میں بچوں میں لاٹری بہت مرغوب ہوتی تھی جس میں چھوٹے چھوٹے انعامات چھپے ہوتے تھے مثال کے طورپر پلاسٹک کی انگوٹھی یا کی چین وغیرہ۔‘
’ہول سیل مارکیٹ سے دو ریال میں لاٹری کا بکس خریدا اور سکول میں ساتھیوں کو فروخت کرنے لگا اس سے مجھے 4 ریال کا منافع ہوا۔ کچھ دن بعد جب رقم جمع ہوئی تو میں نے ’ابومیزان‘ برانڈ کے بسکٹ کا ڈبہ خریدا اور سکول کے دوستوں کو بسکٹ فروخت کرنے لگا۔ یہاں سے تجارت کے راستے میرے سامنے کھلنے لگے۔‘
سعودی وزیر مملکت کا کہنا تھا ’بسکٹ کی خرید وفروخت سے مجھے تجربے کے ساتھ بہت کچھ مل چکا تھا۔ جمع شدہ رقم سے سائیکل خریدی اور اسے گاؤں کے بچوں کو کرائے پر دینے لگا۔‘
انہوں نے سائیکل سے ہونے والی آمدنی کو جمع کیا اور ایک دن موٹرسائیکل لے آیا مگر میرے لیے ایک اور مشکل کھڑی ہو گئی کیونکہ گاؤں کے لڑکوں کے پاس موٹر سائیکل کرائے پر لینے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔
’مجبور ہوکر میں ابھا شہر میں آگیا جہاں موٹرسائیکل کرائے پر دینے لگا جس سے میرے پاس اتنی رقم جمع ہوگئی کہ ایک پرانی گاڑی خرید سکوں۔‘
ڈاکٹر سعود المتحمی نے مزید کہا ’پک اپ خرید کر اسے سبزی منڈی میں لے گیا۔ سامان لے جانے کا کام شروع کیا پھر پک اپ کو فروخت کرکے گاڑی خریدی اور اس کے ذریعے ابھا سے خمیس مشیط کے لیے سواریاں لے جانے کا کام شروع کیا۔‘