Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کے کم عمر ترین وزیراعظم راجیو گاندھی، جو سیاست سے دور رہنا چاہتے تھے

1987 میں صدر ضیاالحق نے ’کرکٹ میچ کے بہانے‘ انڈیا جا کر راجیو گاندھی سے ملاقات کی تھی (فوٹو: یوریشیا ٹائمز)
یہ فروری 1987 کا ذکر ہے۔ پاک اور انڈیا کی سرحد پر کشیدگی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا جب 21 فروری کو پاکستان ایئرفورس کے ایک طیارے نے دہلی ایئرپورٹ پر لینڈ کیا۔
اس طیارے میں کوئی اور نہیں بلکہ اس وقت پاکستان کے صدر جنرل ضیاالحق سوار تھے جو جے پور میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والا ٹیسٹ میچ دیکھنے کے لیے انڈیا آئے تھے مگر ظاہر ہے کہ یہ صرف ایک بہانہ تھا کیوں کہ اُن کے دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کم کرنا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق کی انڈیا آمد نے اُس وقت کے انڈین وزیراعظم راجیو گاندھی کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔
انڈیا ٹوڈے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں راجیو گاندھی کے قومی سلامتی کے مشیر بہرام نام نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’انڈین وزیراعظم جنرل ضیا الحق کو ہوائی اڈے پر خوش آمدید کہنے کے لیے تیار نہیں تھے تاہم ان کے ساتھیوں نے انہیں قائل کیا کہ سفارتی آداب کے تحت یہ ضروری ہے۔ میچ چوں کہ جے پور میں کھیلا جا رہا تھا، چنانچہ راجیو گاندھی نے اپنے مشیر بہرام نام کو جنرل ضیا کے ساتھ جانے اور ان کا خیال رکھنے کا حکم دیا۔‘
بہرام نام نے اس مضمون میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’جنرل ضیا نے چنئی روانہ ہونے سے قبل راجیو گاندھی سے رُخصت لیتے ہوئے کہا کہ ’مسٹر راجیو، آپ اگر پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں، لیکن یاد رکھیں، اس کے بعد دنیا ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول جائے گی اور صرف ضیا الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی کیوںکہ یہ روایتی جنگ نہیں بلکہ ایٹمی جنگ ہو گی۔‘
یہ واقعہ پاکستان اور انڈیا کی تاریخ میں کرکٹ ڈپلومیسی کے نام سے جانا جاتا ہے جس کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔
بعدازاں راجیو گاندھی نے دسمبر 1988 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ اس وقت پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت کو قائم ہوئے صرف چار ہفتے ہی گزرے تھے اور آمریت سے جمہوریت کی جانب ٹرانزیشن جاری تھی۔

راجیو گاندھی کی سونیا گاندھی سے پہلی ملاقات 1965 میں برطانیہ کے شہر کیمبرج میں ہوئی تھی (فوٹو: گیٹی امیجز)

یہ کسی بھی انڈین وزیراعظم کا 28 برس بعد پاکستان کا دورہ تھا۔
اس سے قبل راجیو کے نانا جواہر لعل نہرو نے 1960 میں تاریخی سندھ طاس معاہدہ کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا، چنانچہ سفارتی حلقوں میں یہ سرگرشیاں جاری تھیں کہ اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات بہتر ہوں گے۔
یہ دورہ اس لیے بارآور ثابت ہوا کہ راجیو گاندھی اور بے نظیر بھٹو نے بالآخر جوہری عدم جارحیت کے تاریخی معاہدے پر دستخط کیے۔
انڈیا اور پاکستان دونوں کو ہی اپنی جوہری تنصیبات کے حوالے سے شدید عدم تحفظ کا احساس تھا، چناںچہ اس معاہدے کے تحت دونوں وزرائے اعظم نے یہ عہد کیا کہ وہ ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہیں کریں گے، اور نہ ہی کسی غیر ملکی طاقت کو ایسا کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔
یہ ذکر اس لیے کیا کہ آج راجیو گاندھی کی 34 ویں برسی ہے جن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ انڈیا کے حادثاتی وزیراعظم تھے تو غلط نہ ہوگا۔
 سال 1980 میں راجیو کے چھوٹے بھائی اور اندرا گاندھی کے سیاسی جانشین سنجے گاندھی جب طیارے حادثے میں جان سے گئے تو راجیو کو والدہ اندرا گاندھی کے اصرار پر سیاست میں آنا پڑا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ راجیو کی اہلیہ سونیا گاندھی بھی راجیو کے سیاست میں آنے کے خلاف تھیں۔ انہوں نے اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ راجیو گاندھی کے سیاست میں حصہ لینے کی مخالفت کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ انہیں خدشہ تھا کہ اگر راجیو سیاست میں آئے تو ان دونوں کی خاندانی زندگی متاثر ہو گی۔
اُن کو یہ ڈر بھی تھا کہ راجیو کی بھی اپنی ماں اندرا اور بھائی سنجے کی طرح جان سے جا سکتے ہیں۔

1980 میں ایک فضائی حادثے میں بڑے بھائی سنجے گاندھی کے جان سے جانے کے بعد راجیو گاندھی کو سیاست میں آنا پڑا (فوٹو: گیٹی امیجز)

یہ سال 1965 کا ذکر ہے جب راجیو اور ایڈویگ انتونیا البینا مائنو (شادی کے بعد سونیا گاندھی) کی پہلی ملاقات برطانیہ کے شہر کیمبرج میں ہوئی، جو لندن سے قریباً 80 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔
اس وقت 18 برس کی سونیا اٹلی کے شہر تورن کے قریب واقع قصبے اورباسانو سے انگریزی زبان سیکھنے کے لیے کیمبرج آئی تھیں۔ انہوں نے لینوکس کک سکول آف لینگویجز میں داخلہ لیا، جو اُن دنوں انگریزی زبان سکھانے کا ایک معتبر ادارہ تھا۔
سونیا گھر سے دور ہونے کی بنا پر اداس تھیں تو ایک شام وہ ایک یونانی کافی شاپ میں چلی گئیں۔ وہ کھڑکی کے قریب میز چاہتی تھیں لیکن گراؤنڈ فلور کی تمام کھڑکیوں کے قریب کی میزیں پہلے ہی بھری ہوئی تھیں۔
راجیو گاندھی بھی اسی ریستوران میں موجود تھے۔ دونوں کی نظریں چار ہوئیں اور یوں وہ پہلی نظر میں ہی ایک دوسرے پر دل و جاں سے فدا ہو گئے۔
سونیا گاندھی نے اپنی کتاب ’راجیو‘ (1992)  میں اپنی اور راجیو گاندھی کی پہلی ملاقات کا احوال کچھ یوں بیان کیا ہے۔
’ہماری نظریں پہلی بار قریب سے براہِ راست چار ہوئیں۔ میں اپنے دل کی دھڑکن سن سکتی تھی۔ میرے لیے تو یہ پہلی نظر کا پیار تھا۔ بعد میں انہوں (راجیو) نے مجھے بتایا کہ اس کے لیے بھی ایسا ہی تھا۔‘
راجیو نے خود یہ تسلیم کیا تھا کہ ’میں نے پہلی بار جب سونیا کو دیکھا تو میں جانتا تھا کہ یہ لڑکی میرے لیے ہی بنی ہے۔ میں نے سونیا کو صاف گو اور بے باک پایا۔ وہ کچھ بھی پوشیدہ نہیں رکھتیں۔ وہ بہت پرجوش اور بات کو سمجھتی ہیں۔‘

والدہ اندرا گاندھی کے اصرار پر راجیو گاندھی سیاست میں آئے تھے (فوٹو: کانگریس لائبریری)

ٹیلی ویژن چینل نیوز 18 ویب سائٹ پر ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’کیمبرج کے دنوں میں راجیو اور سونیا اکثر تین سنیما گھروں میں فلمیں دیکھتے جن پر کیمبرج کو فخر تھا۔ ان دونوں نے پہلی بار جو فلم ایک ساتھ دیکھی وہ ستیہ جیت رے کی ’پتھر پنچلی‘ تھی۔‘
مضمون کے مطابق یہ جوڑا رقص کا بہت شوقین تھا، مگر دونوں کو مے نوشی سے نفرت تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کافی عرصے تک سونیا کو راجیو کے سیاسی روابط اور بھارت میں گاندھی خاندان کی مرکزی حیثیت کا بس دھندلا سا ہی اندازہ تھا۔
’ایک دن جب سونیا کی ایک دوست نے اسے انڈیا کی وزیراعظم کی تصویر دکھائی تو تب اسے احساس ہوا کہ گاندھی خاندان انڈیا کی سیاست میں سرگرم ہے اور  گاندھی نام انڈین سیاست کے مترادف ہے۔‘
وکی لیکس میں سونیا گاندھی کی سال 2006 میں اداکار اور امریکی ریاست کیلیفورنیا کے سابق گورنر آرنلڈ شوارزنیگر کی اہلیہ ماریا شرائیور کے ساتھ ہونے والی گفتگو بھی منظر عام پر آئی تھی جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ ان کا خاندان اُن کی راجیو گاندھی سے شادی کے خلاف تھا مگر اس کے باوجود انہوں نے یہ شادی کی۔
رشید قدوائی اپنی کتاب ’سونیا: اے بائیوگرافی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’انہوں (سونیا کے والد) نے دونوں کو مشورہ دیا کہ وہ ایک سال تک ایک دوسرے سے نہ ملیں اور اس عرصے کے بعد دیکھیں گے کہ کیا وہ واقعی اپنی زندگی ایک ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔‘
ایک سال کی یہ دوری کاٹنا دونوں کے لیے ہی آسان نہ تھا لیکن وہ دونوں ایک سال بعد جب ملے تو ان کی محبت دو آتشہ ہو چکی تھی جس پر سونیا کے والد نے بالآخر ان کو شادی کی اجازت دے ہی دی۔
راجیو اور سونیا نے تین سال کے افیئر کے بعد سال 1968 میں شادی کر لی۔ اس دوران 1966 میں اندرا گاندھی انڈیا کی وزیراعظم بن چکی تھیں مگر راجیو سیاست سے دور ہی رہے۔

21 مئی 1991 کو ایک خاتون نے خودکش حملے کا نشانہ بنایا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

اخبار انڈیا ٹوڈے اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’راجیو خود ایک مثالی خاندانی انسان تھے۔ یہ کلیشے کہ راجیو گاندھی نے کبھی سیاست دان بننے کا ارادہ نہیں کیا تھا، خاص طور پر بھارت کے وزیرِ اعظم بننے کا، بالکل درست ہے۔‘
’وہ ایک ایئر لائن پائلٹ کی حیثیت سے خوش تھے، جس کی ماہوار تنخواہ پانچ ہزار روپے تھی، اور جسے وہ اپنا مشغلہ سمجھتے تھے۔ خاندان ان کے لیے سب سے پہلی ترجیح تھا۔ ان کے پاس سونیا اور بچوں کے لیے ہمیشہ وقت ہوتا تھا۔‘
اخبار آگے جا کر مزید لکھتا ہے کہ ’وہ اپنے پالتو کتوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے بھی وقت نکال لیا کرتے۔ وہ اپنی فوٹوگرافی کے شوق میں مشغول رہتے اور ریسنگ کار چلانے سے لطف اندوز ہوتے۔ یا پھر مکینیکل یا الیکٹرانک آلات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے۔‘
’اصل میں راجیو اور سنجے دونوں نے اپنے والد فیروز گاندھی سے مکینیکل شعبے میں صلاحیت وراثت میں پائی تھی۔ راجیو کے پاس ایک بہترین ٹول کٹ تھی، جس میں ہر ریکیٹ اور سکریو ڈرائیور اپنی جگہ پر موجود ہوتا۔‘
’وہ کمپیوٹر کے ماہر، ایک بہترین ساؤنڈ انجینیئر اور موسیقی کے دلدادہ تھے۔ 1960 کی دہائی میں جب موسیقی کے حوالے سے مقابلہ عروج پر تھا تو راجیو کو رولنگ سٹونز بیٹلز سے زیادہ پسند تھے۔‘
1980 میں بھائی سنجے کی وفات کے بعد راجیو کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا کیوںکہ انہوں نے اپنی بیوی سے یہ عہد کر رکھا تھا کہ وہ کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے مگر دوسری طرف والدہ اندرا اصرار کر رہی تھیں کہ وہ کسی اور پر بھروسا نہیں کر سکتیں اور انہیں اس وقت ان کی شدید ضرورت ہے۔

1990 میں بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں راجیو گاندھی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا (فوٹو: نیوز گرام)

یوں راجیو نے امیٹھی (اُترپردیش) کے حلقے سے انتخاب لڑا اور کامیاب ہو کر راجیہ سبھا یعنی ایوانِ زیریں کے رُکن بن گئے۔ والدہ نے ان کی سیاسی تربیت کے لیے پہلے تو انہیں کانگریس پارٹی کا جنرل سیکریٹری بنایا اور بعدازاں 1982 کی ایشین گیمز منتظم کرنے کی ذمہ داری بھی اُن کو سونپی تاکہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی آبیاری ہو سکے مگر اکتوبر 1984 میں اندرا گاندھی کے اپنے سکھ باڈی گارڈز کے ہاتھوں قتل کے بعد راجیو وزیراعظم بنے تو اس وقت وہ صرف 40 برس کے تھے اور یوں وہ انڈین تاریخ ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم کے بھی کم عمر ترین وزرائے اعظم میں سے ایک تھے۔
اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک میں دوبارہ الیکشن ہوئے تو راجیو نے پارٹی کی قیادت کی اور کانگریس پارٹی کے کارکنوں کو مایوس نہیں کیا کیوںکہ 1984 میں ہونے والے ان انتخابات میں کانگریس کو لینڈسلائیڈ کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
راجیو وزیراعظم بنے تو سونیا خاتونِ اول ہوتے ہوئے بھی سیاست میں زیادہ متحرک نہیں رہیں۔
یہ 21 مئی 1991 کا دن تھا جب راجیو ریاست تمل ناڈو میں انتخابی مہم چلا رہے تھے تو تمل ٹائیگرز کی ایک خاتون بمبار نے اُن پر خودکش حملہ کر دیا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ راجیو گاندھی کی عمر اُس وقت صرف 46 برس تھی۔
راجیو گاندھی کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران چند بڑی غلطیوں میں سے ایک ان کا سری لنکا میں امن فورس کو بھیجنا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب سری لنکا میں خانہ جنگی اپنے عروج پر تھی، چنانچہ راجیو گاندھی کے اس فیصلے پر انڈیا میں ہی نہیں بیرونِ ملک بھی شدید تنقید ہوئی۔ 
یہ مانا جاتا ہے کہ تمل ٹائیگرز کی جانب سے راجیو کو نشانہ بنائے جانے کی وجہ اُن کا یہ فیصلہ ہی تھا۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان آج کل حالات کافی کشیدہ ہیں (فوٹو: اے پی)

راجیو تمل ناڈو کے قصبے سریپرومبودور کی جلسہ گاہ پہنچے تو ان کے استقبال کے لیے لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے جن میں بچے میں موجود تھے۔ ان میں ہی اُن کی قاتل 23 برس کی دھنو (کالائیوانی راجارٹنم) بھی شامل تھی جو تمل ٹائیگرز کی خودکش بمبار تھی۔ اس بارے میں بہت سی کہانیاں ہیں کہ اُس روز درحقیقت ہوا کیا تھا۔
کچھ کہتے ہیں کہ دھنو نے پائوں چھونے کی کوشش کرتے ہوئے دھماکہ کیا جب کہ کچھ کہتے ہیں کہ اُس نے راجیو گاندھی کو ہار پہناتے ہوئے دھماکہ کیا۔
راجیو کے صاحب زادے راہول گاندھی اس وقت انڈیا میں اپوزیشن لیڈر ہیں اور اپنے والد اور نہرو، گاندھی خاندان کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
راجیو گاندھی کی موت جنوبی ایشیا کی لہو رنگ سیاست کا ایک اہم باب ہے۔ اس وقت جب پاکستان اور انڈیا میں تعلقات کشیدہ ہیں تو ایک بار پھر کرکٹ ڈپلومیسی کی ضرورت ہے کیوںکہ کھیل دوریاں ختم کرنے کے لیے ہوتے ہیں، بڑھانے کے لیے نہیں۔

 

شیئر: