Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپریشن ’بلیو سٹار‘ جو اندرا گاندھی کی موت کی وجہ بنا

اندرا گاندھی کے قتل نے پورے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ فائل فوٹو: گیٹی امیجز
یہ 31 اکتوبر 1984 صبح 9 بجے کا وقت تھا۔ انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی، ون صفدر یارجنگ روڈ پر واقع اپنی رہائش گاہ کے گیٹ سے باہر نکلتی ہیں۔ ان کا رخ اپنے سرکاری دفتر کی جانب تھا۔
اپنے سیکرٹری آر کے دھاون  سے باتیں کرتے ہوئے ان کی نظر چائے کی پیالی اٹھائے ایک ملازم پر پڑتی ہے جو مہمان کے لیے چائے لے جا رہا تھا۔ انہیں ٹی سیٹ مہمان کے لیے نامناسب لگا۔ وہ رک کر اسے واپس جانے اور اچھا سا ٹی سیٹ لانے کا حکم دے کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔
وہ جیسے ہی پھاٹک تک پہنچتی ہیں تو دو سکھ محافظ تیزی سے ان کی طرف لپکتے ہیں۔ ان میں سے آگے والے بینت سنگھ نامی گارڈ نے پستول نکال کر اس کا رخ اندرا کی طرف کرکے گولی چلا دی۔
وہ جیسے ہی نیچے گریں دوسرے سکیورٹی گارڈ ستونت سنگھ  نے ان پر سٹین گن کی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ چند ہی لمحوں میں اندرا گاندھی کا خون آلود جسم گیٹ کے ساتھ زمین پر بنے ہوئے راستے پر پڑا تھا۔
بینت سنگھ پنجابی میں چلایا: ’ہمیں جو کرنا تھا وہ ہم نے کر دیا ہے ۔ اب تمہیں جو کرنا ہے وہ تم کر سکتے ہو۔‘ ساتھ ہی دونوں حملہ آوروں نے ہتھیار پھینک کر اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
دھاون نے گھائل اندرا گاندھی کو ایک کار میں ڈال کر ہسپتال پہنچایا۔ آپریشن تھیٹر میں پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ چکی تھیں۔ شام چار بجے کے سرکاری اعلان میں ان کی موت کی تصدیق سے قبل ساری دنیا میں میڈیا کے ذریعے ان کی موت کی خبر پہنچ چکی تھی۔
وہ گزشتہ رات اڑیسہ کے دورے سے واپس آئی تھیں ۔ اس روز انہوں نے نامور اداکار پیٹرا سٹینوف کے ساتھ عوامی دربار میں لوگوں سے ملاقات کی فلم بندی کروانی تھی۔
انتہا پسند سکھوں کے ہاتھوں اندرا گاندھی کی موت دراصل ان کے مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل پر کیے جانے والے فوجی آپریشن ’بلیو سٹار‘ کا  انتقام تھا۔ نامور ہندوستانی صحافی کلدیپ نایر کے مطابق سیکیورٹی اداروں نے ان کے سکھ محافظوں کو تبدیل کرنا چاہا مگر اندرا انہیں برقرار رکھنا چاہتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح محافظوں کو ہٹانے سے سکھ برادری پر برا تاثر قائم ہوگا۔

پنڈت جواہر لعل نہرو کی اندرا گاندھی کے ساتھ ایک تصویر ۔ فائل فوٹو: پریس ٹرسٹ انڈیا

اس قتل نے سارے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا ۔ دہلی میں سکھوں کے خلاف پرتشدد فسادات پھوٹ پڑے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف دہلی میں تین ہزار سکھ قتل کر دیے گئے۔ انتقام اور نفرت کی لہر اس قدر شدید تھی کہ مشہور قلم کار خشونت سنگھ اور جنرل جے ایس اروڑا جیسے نامور سکھوں کو بھی اپنا گھر چھوڑ کر کسی محفوظ جگہ منتقل ہونا پڑا۔
انڈین حکومت نے چیف جسٹس رنگاناتھن کی سربراہی میں قتل کے محرکات جاننے کے لیے خصوصی کمیشن قائم کیا ۔ اس کی رپورٹ کسی واضح نتیجے کے بغیر محض مفروضات کے گرد گھومتی ہے۔ بعد ازاں ایک اور جج جسٹس ٹھکر کو مجرموں کی نشاندہی کی ذمہ داری دی گئی۔
کلدیپ نائر کے مطابق ان کی رپورٹ میں اندراگاندھی کے سکریٹری دھاون پر شکوک و شبہات کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی اکلوتی اولاد اور ان کے سیاسی ورثے کی وارث اندراگاندھی کا جنم 19 نومبر 1917 کو الہ آباد میں ہوا۔
وہ کانگریس کے صدر موتی لال نہرو کی پوتی تھیں۔ اس کشمیری النسل برہمن خاندان کا ایک فرد راج کول مغل فرمانروا فرخ سیر کے دربار سے وابستگی کے لیے سری نگر سے دہلی آ بسا تھا۔
اندرا نے سیاست، احتجاج اور آزادی کے نعروں کے ماحول میں پرورش پائی۔ باپ اور دادا دونوں مغربی تعلیم یافتہ اور یورپی طرز زندگی کے دلدادہ تھے مگر گاندھی کی قربت اور افکار کے زیر اثر ان کا سیاسی نظریہ ہی نہیں رہن سہن بھی بدل گیا۔
یہ دور تحریک عدم تعاون اور سول نافرمانی کی تحریکوں  کا تھا۔ اندرا گاندھی کے بچپن کے نقوش اور دلچسپیوں کی صورت گری انہیں سیاسی حالات کے زیر اثر ہوئی ۔ ’اندرا گاندھی اے آٹوگرافی‘ کے مصنف زریر ماسانی کے مطابق اسے جہاں گڑیوں سے کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا وہیں پر وہ فرانس کی جنگ آزادی کی ہیرو جون آف آرک کے کردار کو نبھانے کی متمنی بھی رہتی تھیں۔ شاید اسی تمنا کی تکمیل انھوں نے اپنے لڑکپن میں وانار سینا (بندروں کی فوج) کی تشکیل کر کے کی۔ کانگریس کی تحریک کی مدد گار بچوں کو یہ فوج پارٹی کے لیے چھوٹے موٹے کام کرتی تھی۔
پنڈت نہرو کی بیٹی کی تعلیم و تربیت اس دور کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہوئی۔ معروف بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کے قائم کردہ ادارے شانتی نیکیتن نے اس کی شخصیت کے نکھار میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا۔ خدائی خدمت گار تحریک کے بانی باچا خان کے بیٹے اور اے این پی کے رہنما ولی خان کے بھائی غنی خان یہاں اندرا کے ہم جماعت تھے۔ ایک بار دونوں نے مل کر ادارے کے غیر ملکی استاد کی چھٹی کروا دی تھی۔

۔ 8 جون 1984 کو گولڈن ٹیمپل میں موجود سکھ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں 800 سکھ جنگجو اور 200 انڈین فوجی ہلاک ہوئے۔ (اکنامک ٹائمز)

اندرا کے نام کے لاحقے ’گاندھی‘ سے عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے موہن کرم چند گاندھی سے عقیدت کی وجہ سے اسے اپنے نام کا حصہ بنایا مگر حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ اس کی نسبت  اندرا کے شوہر فیروز گاندھی کی وجہ سے ہے۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پارسی  گھرانے کے فرد فیروز گاندھی کا نہرو فیملی سے ابتدائی تعارف اندرا کی والدہ کا مالا سے سول نافرمانی کی تحریک کے دوران ہوا ۔ 1936 میں اندرا تعلیم کے لیے آکسفورڈ گئیں تو فیروز لندن سکول آف اکنامکس کے طالب علم تھے
برطانیہ میں ہندوستانی طلبا کی تنظیم آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن میں نظریاتی طور پر دو گروپ سرگرم تھے ۔ ایک کانگرس کا حامی تو دوسرا کمیونسٹ خیالات سے متاثر تھا ۔ فیروز گاندھی مؤخر الذکر  کے پرجوش کارکن تھے ۔ اندرا کا ان سے الہ آباد کی ملاقاتوں کے بعد لندن میں بھی میل جول بڑھا۔ فیروز گاندھی کی شخصیت اندرا کو بھا گئی ۔ وہ اس کے نظریات کی ہی نہیں بلکہ ذات کی بھی اسیر ہو گئیں۔دونوں نے اس مضبوط جذباتی وابستگی کو جب شادی کا روپ دینا چاہا تو جیسے پورے ہندوستان میں افراتفری مچ گئی۔
ہندو برہمن لڑکی کا پارسی خاندان میں شادی کے سوال پر مخالفت کا طوفان کھڑا ہو گیا ۔ معروف اطالوی صحافی اوریانا فلاشی کو دیے گئے انٹرویو میں اندرا گاندھی نے انہیں بتایا کہ ان کے شادی کے فیصلے پر پورے ملک سے خطوط کے ذریعے موت کی دھمکیاں ملنے لگیں ۔ ان کے آبائی گھر آنند بھون میں خطوط کے ڈھیر لگ گئے تو انہوں نے پڑھنا ہی چھوڑ دیے۔
اندرا گاندھی کی بائیوگرافی کا مصنف اس بارے میں لکھتا ہے کہ شروع میں نہرو کو بھی فیروز گاندھی سے شادی میں تامل تھا۔ وہ کچھ عرصے کے لیے اسے التوا میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ اندرا  کسی اور ہندو نوجوان کو پسند کر لیں۔ اسی غرض سے انہوں نے اندرا کو گاندھی جی کے آشرم بھجوا دیا۔

بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی میں ’انکلز‘ کی طرح اندرا گاندھی کو پارٹی کے ’سنڈیکیٹ‘ کے ساتھ طویل کشمکش کا سامنا رہا۔ (فوٹو: وکی پیڈیا)

نہرو خاندان کے لیے اندرا کا غیر ہندو سے شادی پر اصرار کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل نہرو کی بہن وجیہ لکشمی پنڈت کی ایک مسلمان کے ساتھ شادی نے بھی طوفان برپا کیا تھا۔ وہ اپنے والد کے اخبار انڈیپنڈنٹ کے ایڈیٹر سید حسین کے دام الفت میں گرفتار ہو گئی تھیں۔ دونوں نے نہرو خاندان کے علم میں لائے بغیر نہ صرف شادی کر لی بلکہ لکشمی  نے اسلام بھی قبول کر لیا تھا۔
اسٹینلے والپرٹ اپنی کتاب ’نہرو‘ میں لکھتا ہے کہ اس شادی نے ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی موتی لال نہرو کو مشکل میں ڈال دیا۔ کانگریس کے صدر کی بیٹی کا مسلمان ہوکر شادی کرلینا کٹر ہندو کو ہضم نہیں ہو پا رہا تھا ۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے نمایاں رہنما اس قضیے کو نمٹانے میں لگے ہوئے تھے۔ آخرکار گاندھی جی نے ہندو مسلم تعلقات کی خرابی کا جواز بتا کر اس شادی کو ختم کروایا۔سید حسین نے اخبار کی ادارت اور ہندوستان کو خدا حافظ کہہ دیا ۔ وجیہ لکشمی پنڈت کو سوچ میں تبدیلی کے لیے گاندھی آشرم بھیج دیا گیا۔
اپنی پھوپھی کے برعکس اندرا اس معاملے میں خوش نصیب ثابت ہوئیں کہ گاندھی اور نہرو دونوں کو اس کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔ سنہ 1942 سے تقسیم ہند تک دونوں میاں بیوی کے تعلقات مثالی رہے۔ نہرو ہندوستان کے وزیراعظم بنے تو اندرا نے اپنی والدہ کی عدم موجودگی میں خاتون اول کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ وہ نہرو کی ذاتی اور سیاسی معاملات کی نگران اور معاون بن گئیں ۔ اس مصروفیات کی وجہ سے فیروزگاندھی نظر انداز ہونا شروع ہو گئے جس نے دونوں کے درمیان فاصلوں میں اضافہ کر دیا۔ ان کی زندگیوں میں تلخیاں اور جھگڑا معمول کا حصہ بن گئے۔
زریر ماسانی لکھتے ہیں کہ روسی صدر خروشیف کے دورۂ ہندوستان کے موقع پر ایک تقریب میں فیروز گاندھی کو کچھ ممبران پارلیمنٹ کے ہمراہ سکیورٹی اہلکاروں نے اندر جانے سے روک دیا ۔ اس توہین پر وہ تلملا اٹھے اور لوک سبھا میں اس کے خلاف آواز بلند کی ۔ سنہ 1960 میں فیروز کی وفات تک دونوں کے درمیان تعلقات کا یہی عالم رہا۔
سنہ 1978 میں جب اندرا گاندھی اقتدار سے باہر تھیں تو ان کے حوالے سے نہرو کے پرائیویٹ سیکریٹری ایم او متھائی کی کتاب کے ایک غیر مطبوعہ باب کی اشاعت نے اندرا کی ذاتی زندگی کے بارے میں انکشافات اور اعتراضات کا سامان پیدا کر دیا ۔ اس اشاعت میں اس کے اندرا کے ساتھ قریبی تعلقات کا ذکر تھا۔

انتہا پسند سکھوں کے ہاتھوں اندرا گاندھی کی موت دراصل گولڈن ٹیمپل پرفوجی آپریشن ’بلیو سٹار‘ کا  انتقام تھا۔ (فوٹو: اکنامک ٹائمز)

معروف  صحافی کلدیپ نائر نے اپنی آپ بیتی میں اس بارے میں دلچسپ تفصیل بیان کی ہے ۔ ان کے مطابق ایک ملاقات میں متھائی نے انہیں بتایا کہ اندرا ان سے شادی کرنا چاہتی تھی جب انہوں نے اس بات کو ناقابل یقین قرار دیا تو متھائی نے انہیں معروف صنعت کار اور ہندوستان ٹائمز کے مالک ڈی جی برلا سےاس بات کی تصدیق کرنے کو کہا۔
مصنف کو اس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب برلا نے کہی ہوئی بات کی تصدیق کر دی۔ متھائی کے اس انکشاف میں اللہ جانے کتنی صداقت تھی مگر اس الزام کی قیمت اس کو راجیا سبھا کی نشست پر ٹکٹ سے محرومی کی صورت میں چکانی پڑی۔
پنڈت نہرو نے اپنی بیٹی کی سیاسی تربیت کی آزمائش کے لیے انیس سو انسٹھ میں اسے کانگریس کا صدر بنا دیا ۔ جس پر انہیں اپنے بہت سے پرانے ساتھیوں  کی مخاصمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
انیس سو چونسٹھ میں نہرو کی وفات کے بعد شاستری کی حکومت میں اطلاعات کی وزارت اندرا کے لیے حکومتی تجربے کی پہلی سیڑھی تھی۔ وزیر اعظم شاستری کی ناگہانی موت نے وزارت عظمٰی کا دروازہ بھی ان پر کھول دیا ۔ مگر یہ مرحلہ ان کے لیے آسان نہ تھا۔
کانگریس میں ’بزرگ ٹولے‘ کے نام سے معروف جہاندیدہ رہنماؤں نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی جن میں ہندوستان کے سابق وزیراعظم مرار جی ڈیسائی اور سابق وزیر دفاع کرشنا مینن پیش پیش تھے۔ کانگریس کی تاریخ میں پہلی دفعہ پارلیمانی پارٹی میں نامزدگی کے لیے ووٹنگ ہوئی ۔ اندرا کو 225 اراکین کی حمایت ملی جبکہ 149 اراکین مخالفت میں تھے۔
انیس سڑسٹھ  کے انتخابات میں کانگریس کی مرکز میں سیٹوں میں کمی اور پانچ ریاستوں میں شکست نے پارٹی کے ’اولڈ گارڈز‘ کو اندرا کے خلاف متحد کر دیا ۔اس بار پارٹی کے صدر کامراج بھی ان کے ہمنوا تھے۔
پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور مسز اندراگاندھی میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ قدر بھی مشترک تھی کہ دونوں کو اپنے والد کی پارٹی کے بزرگ رہنماؤں کے ساتھ مخالفت میں صف آرا ہونا پڑا۔ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی میں "انکلز" کی طرح اندرا گاندھی کو پارٹی کے "سنڈیکیٹ" کے ساتھ طویل کشمکش کا سامنا رہا۔
بھارت کے صدر  ذاکر حسین کی سنہ 1969 میں موت کے بعد ان کی جانشینی پر اندرا گاندھی اور کانگریس کے بزرگ ٹولے میں زیر زمین پلنے والے اختلافات منظرعام پر آ گئے ۔ سنڈیکیٹ کے ارکان سنجیوا ریڈی جبکہ اندرا جگ جیون رام کو نیا صدر بنانا چاہتی تھیں۔ انھوں نے کمال سیاسی حکمت عملی کے ذریعے ایک آزاد امیدوار وی وی گری کو صدر بنواکر سنڈیکیٹ کے منصوبوں پر خاک ڈال دی ۔

بھٹو نے اندرا کو ایک درمیانے درجے کی عورت قرار دیا جو اوسط درجے کی ذہانت کی مالک ہے۔ (فوٹو: وکی پیڈیا)

اپنے والد کی طرح اندرا کی سیاسی سوچ  بائیں بازو کی طرف رجحان پر مبنی تھی۔ اسی کے زیراثر انہوں نے بینک اور انشورنس اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا۔ اگرچہ وہ اوریانہ فلاشی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کھل کر اشتراکیت پسندی کا اعتراف نہیں کرتیں مگر کانگریس کے قدامت پسند لیڈر انہیں اشتراکیت  پسند سمجھتے تھے اور ان پر کمیونسٹوں کے ہاتھوں میں  کھیلنے کا الزام دھرتے رہے۔
اسی باعث ایک دور میں ہندوستان کے کمیونسٹ عناصر بھی اندرا کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ جب انہوں نے ہندوستان کی دیسی ریاستوں کے سابق حکمرانوں کی باقی ماندہ جاگیروں کو قومی تحویل میں لینا چاہا تو معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ جس نے وزیراعظم کو اس اقدام سے روک دیا۔
ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی انیس سو بہتر میں اقتدار سنبھالنے کے بعد یہاں کی دیسی ریاستوں کے والیان کے وظائف اور مراعات و ضبط کر لیے تھے جو کہ کچھ عرصہ بعد قائداعظم کے ساتھ معاہدے کی دستاویزات کی وجہ سے بحال کر دیے گئے۔
ایک موقع پر قانون سازی کے معاملے پر اندرا اور انڈین سپریم کورٹ آمنے سامنے آ گئے جب وزیراعظم کی طرف سے آئینی ترمیم کو کورٹ نے رد کر دیا۔ انڈین سپریم کورٹ نے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کسی بھی تبدیلی کو خارج از امکان قرار دیا ۔ اس فیصلے میں شامل تین ججوں کو اندراحکومت نے گھر بھیج دیا۔ ایک جونیئر جج کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس لگا دیا ۔ اس طرز عمل کو  اندرا کی ہٹ دھرمی اور آمرانہ سوچ کا عکاس قرار دیا گیا۔
اندرا گاندھی کی آمریت کا حقیقی اظہار 1975 میں نافذ کی جانے والی ایمرجنسی تھی ۔ اوریانا فلاشی کے الفاظ میں جب اس نے جمہوریت کا دامن چھوڑ کر ایک آمر حکمران کا لبادہ اوڑھ لیا۔
انیس سو اکہتر میں انہوں نے قبل از وقت انتخابات کا ڈول ڈالا۔ پارٹی  میں ان کے مخالفین نے ’اندرا ہٹاؤ‘ کا نعرہ لگایا  ۔ جواب میں سنجے گاندھی کے گھڑے نعرے ’غریبی ہٹاؤ‘ کو مقبولیت حاصل ہوئی اور وہ پہلے سے زیادہ  اکثریت سے  وزیراعظم بن گئیں مگر وہ غریبی  ہٹاؤ  کے نعرے کو عملی شکل میں ڈھالنے میں ناکام رہیں۔
ان کے خلاف عوامی غم و غصے اور ناراضی کو نہرو کے پرانے ساتھی جے پرکاش نارائن نے پری ورتن (تبدیلی ) کےنعرے کے  ذریعے زبان دی۔ اس تحریک میں ناراض کمیونسٹوں  اور مذہبی شدت پسند جن سنگھ  کی شمولیت نے وزیراعظم کے لیے مشکلات پیدا کردیں۔
وہ عوامی تحریک سے نمٹنے کا سوچ ہی رہی تھیں کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جگ موہن لال نے انہیں کسی بھی عہدے کے لیے چھ سال کے لیے نااہل قرار دیا۔ یہ فیصلہ راج نرائن کی انیس سو اکہتر کے انتخابات میں حکومتی وسائل کو استعمال کرکے کامیابی حاصل کرنے کے خلاف ایک درخواست پر دیا گیا
ان پر سرکاری حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے انتخابی جلسے کے لیے سٹیج کی تعمیر کا الزام تھا۔ اندرا نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ۔جسٹس کرشنا  نے انہیں مقدمے کے فیصلے تک وزیراعظم کے طور پر کام کرنے کی اجازت دے دی مگر انہیں ایوان میں ووٹ دینے کے حق کو استعمال کرنے سے روک دیا ۔

کلدیپ نائر کہتے ہیں کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اندرا گاندھی نے مستعفی ہونے کا بھی سوچا۔ (فوٹو: وکی پیڈیا)

کلدیپ نائر کہتے ہیں کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اندرا گاندھی نے مستعفی ہونے کا بھی سوچا۔ مگر ان کے بیٹے سنجے گاندھی آڑے آئے اور انہیں روک دیا۔ مغربی بنگال کے وزیر اعلی اور سنجے ہی تھے جنہوں نے اندرا کو ایمرجنسی لگانے کا مشورہ دیا ۔ 25 جون 1975 کی شب ایمرجنسی  نافذ کردی گئی ۔تمام بنیادی حقوق معطل کر دیے گئے ۔ سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کو حراست میں لے لیا گیا ۔نہرو کی بہن وجیہ لکشمی  پنڈت نے کھل کر ایمرجنسی  کی مخالفت کی۔ ان غیر جمہوری اقدامات کا نتیجہ 1977 کے انتخابات میں کانگریس کی شکست کی صورت میں نکلا۔
ہندوستان میں تبدیلی کا نعرہ دینے والے جے نرائن پرکاش کی تحریک نے جنتا پارٹی کو جنم دیا جس نے انتخابات جیت لیے۔ اس میں کانگریس اور جن سنگھ  کے ساتھ ساتھ سابق سوشلسٹ بھی شامل ہو گئے ۔ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کی کرپشن کے خلاف تبدیلی کے نعرے اور الیکشن میں کامیابی کا ہندوستان میں جنتا پارٹی کے عروج اور سابق وزیراعظم کی شکست سمیت بہت سارے پہلوؤں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
سنہ 1972 میں اندرا گاندھی اور پاکستان کے وزیراعظم کے درمیان ایک دوسرے کے بارے میں فقرہ بازی پر تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ اطالوی صحافی اوریانا فلاشی کے اندرا گاندھی کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے بھٹو کو غیر متوازن قرار دیتے ہوئے ان کی باتوں کو  سمجھ میں نہ آنے والی کہا۔ 
اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد وہ بھٹو سے انٹرویو کی غرض سے ملیں۔ دوران گفتگو جب اندرا گاندھی کا تذکرہ ہوا تو بھٹو نے ان کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے ۔ اوریانہ فلاشی نے اپنی کتاب ’انٹرویوز ود ہسٹری‘ میں اس واقعے کی تفصیل بیان کی ہے ۔وہ لکھتی ہیں کہ بھٹو نے اندرا کو ایک درمیانے درجے کی عورت قرار دیا جو اوسط درجے کی ذہانت کی مالک ہے۔ ان کے اقتدار میں آنے وجہ صرف نہرو کی بیٹی ہونا ہے ۔ مصنفہ کے مطابق بھٹو نے ان سے کہا کہ وہ کبھی اندرا سے متاثر نہیں ہوئے۔ ان کی پہلی ملاقات آکسفورڈ میں ہوئی تھی ۔ وہ اس تعلیمی ادارے سے ڈگری حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھیں۔
ان خیالات کی اشاعت کے بعد اندرا گاندھی کی طرف سے بھٹو سے ملاقات نہ کرنے کا اعلان آ گیا۔ دونوں اطراف سے  ذاتی حملوں کی وجہ سے جنگی قیدیوں کا مسئلہ کھٹائی میں پڑتا ہوا محسوس ہونے لگا ۔ اوریانا کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی سفیر کے ذریعے انہیں وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی تردید کا کہا۔ کچھ عرصے میں ہی ان گرما گرم بیانات کی حدت میں کمی آگئی ۔ پھر دونوں وزرائے  اعظم کی ملاقات کے اعلان نے تلخی کے ماحول میں مزید کمی کر دی۔
جنتا پارٹی کی تین سالہ حکومت کے بعد اندراگاندھی پہلے سے زیادہ اکثریت سے برسراقتدار آئیں۔ ان کے سیاسی وارث سنجے کی موت نے اندرا کو اندر سے توڑ ڈالا۔ سنجے کی بیوہ مانیکا کے ساتھ تنازعات نے ذاتی زندگی کو اور تلخ بنا دیا۔
بحیثیت وزیراعظم آپریشن بلیو سٹار کا فیصلہ ان کی موت کی وجہ بن گیا۔ 8 جون 1984 کو گولڈن ٹیمپل میں موجود سکھ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں 800 سکھ جنگجو اور 200 انڈین فوجی ہلاک ہوئے۔ انڈین صدر گیانی ذیل سنگھ سمیت اکثریتی سکھ کمیونٹی نے ان کے اس فیصلے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ سنہ 2004 میں ان کی بہو اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔
کانگریس کی قیادت آج بھی اندرا کے خاندان کے پاس ہے۔ نہرو کے خاندان کی چوتھی نسل راہول اور پریانیکا گاندھی کی صورت انڈین سیاست میں موجود ہے۔
اندرا گاندھی کی زندگی، جدوجہد، کامیابیوں اور ناکامیوں کی عکاسی اور تشریح ایک ہندوستانی صحافی فرینک موریس کا لکھا یہ فقرہ بخوبی کرتا ہے کہ ’کانگریس کی بوڑھی خواتین میں وہ واحد مرد تھیں۔‘

شیئر: