Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اب تک اعضا کے صرف پانچ عطیات‘، نادرا کا خصوصی کارڈ کتنی بہتری لا سکتا ہے؟

پاکستان میں اعضا عطیہ کرنے کی شرح دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے (فوٹو: میڈیکل کیئر)
پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک صرف پانچ ایسے افراد سامنے آئے ہیں جنہوں نے وفات کے بعد اعضا عطیہ کیے اور یہ شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر اعضا کا عطیہ زندہ افراد کی جانب سے قریبی رشتہ داروں کے لیے ہو رہا ہے جن کو کسی بیماری کی وجہ سے پیوندکاری درکار ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں اعضا عطیہ کرنے اور اس کے فوائد سے متعلق مناسب آگاہی اور نہ ہونے کے علاوہ حکومتی سطح پر بھی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے اور اسی وجہ سے ملک میں اعضا عطیہ کرنے کا رجحان بہت کم ہے، جسے بڑھانے کے حکومت کو اقدامات کرنے چاہییں۔
اب نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے زندگی میں اعضا عطیہ کرنے والوں کے لیے ایک نئی سہولت کا اعلان کیا ہے۔
اس کے تحت جو شہری اپنی زندگی میں یہ اعلان کریں گے کہ وفات کے بعد کون سے اعضا عطیہ کیے جائیں گے اور اس کے لیے باقاعدہ رجسٹریشن بھی کروائی جائے گی۔

اعضا عطیہ کرنے والے افراد کا ریکارڈ کیسے رکھا جائے گا؟

اُردو نیوز کے رابطے پر نادرا کی جانب سے فراہم کیے گئے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ وہ افراد جو متعلقہ ڈونر رجسٹریشن اتھارٹیز میں اعضا کے عطیہ کے لیے باقاعدہ اندراج کرواتے ہیں، انہیں تاحیات میعاد والا ایک خصوصی شناختی کارڈ جاری کیا جائے گا، جس پر ڈونر کا علامتی نشان درج ہوگا۔
اسی طرح ایسے شہری جو ایک جانب خصوصی افراد کی تعریف پر پورا اترتے ہوں اور دوسری جانب اعضا کے عطیہ کے لیے بھی رجسٹرڈ ہوں، انہیں ایک منفرد شناختی کارڈ جاری کیا جائے گا، جس پر وہیل چیئر اور ڈونر دونوں نشانات شامل ہوں گے۔ یہ کارڈ بھی تاحیات مؤثر ہو گا۔
نادرا کے مطابق ان اقسام کے شناختی کارڈز اور بچوں کے لیے جاری کیے جانے والے (ب) فارم کے ڈیزائن، علامات، مدت اور دیگر انتظامی تفصیلات سے متعلق چار نئے شیڈولز قواعد میں شامل کیے گئے ہیں۔
نادرا کا کہنا ہے کہ قواعد میں کی گئی یہ ترامیم جلد ہی “گزٹ آف پاکستان” میں شائع کی جائیں گی اور نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا۔

دنیا کے دوسرے ممالک میں زندگی کے دوران اعضا عطیہ کرنے کا رجحان کافی زیادہ ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اعلامیے کے مطابق وفاقی حکومت نے حالیہ عرصے کے دوران نادرا آرڈیننس 2000 کی دفعہ 44 کے تحت اہم ترامیم کی منظوری دی ہے، جن کے تحت خصوصی افراد کو تاحیات میعاد کے ساتھ منفرد شناختی کارڈ جاری کیا جا رہا ہے، جبکہ وہ بالغ خصوصی افراد، خواہ پاکستان میں مقیم ہوں یا بیرون ملک، جو وفاقی یا صوبائی سطح پر متعلقہ اداروں میں رجسٹرڈ ہوں، انہیں وہیل چیئر کے لوگو کے ساتھ ایک خاص شناختی کارڈ جاری کیا جائے گا، جو تمام عمر کے لیے مؤثر ہوگا۔

خصوصی بچوں کے لیے نشان زدہ ب فارم

کسی بھی جسمانی کمزوری کے شکار 18 سال سے کم عمر کے افراد کے لیے ایک مخصوص نشان والا ب فارم یا نوعمری سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔ اس دستاویز کی میعاد قواعد کی دفعہ 18 کے تحت طے شدہ مدت تک مؤثر رہے گی۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے سماجی کارکن اور سابق نیول پائلٹ شاہواز بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے اعضا عطیہ کرنے پر تاحیات شناختی کارڈ دینے کا اعلان دریا کے مقابلے میں ایک قطرے کے مترادف ہے۔

نادرا کا کہنا ہے کہ عطیہ دہندگان کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جائے گی (فوٹو: اے ایف پی)

’حکومت کو مزید سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ صرف شناختی کارڈ کی پیشکش پر کوئی شہری اپنے اعضا عطیہ کرنے پر تیار نہیں ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایسے افراد کے لیے کم از کم ٹیکس میں چھوٹ اور ایک ایسا سمارٹ کارڈ جاری کرنا چاہیے جس کے ذریعے انہیں سفری اخراجات میں بھی رعایت حاصل ہو۔
اسی طرح ایک اور سماجی کارکن اور وکیل مسیح الدین حمیرہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نادار کے اقدام کو خوش آئند قرار دیا۔
 ان کے مطابق ’انسانیت کی خدمت کے فروغ کے لیے کیا جانے والا ہر اقدام قابلِ ستائش ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شاید یہ اقدام ناکافی ہو تاہم اسے درست سمت میں ایک درست قدم ضرور کہا جا سکتا ہے۔‘

 

شیئر: