Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلگت بلتستان میں لینڈ ریفامز ایکٹ پر تنازع، ’ نتائج خوف ناک ہوں گے‘

گلگت بلتستان کی اپوزیشن جماعت کی جانب سے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کے خلاف احتجاج کی دھمکی بھی دی گئی ہے (فائل فوٹو: اے پی پی
گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز ایکٹ 2025 کے نام سے نئی قانون سازی کی گئی ہے جس کا مجوزہ بل بدھ، 21 مئی کو گلگت بلتستان کے ایوان سے کثرت رائے کے ساتھ منظور کر لیا گیا ہے۔
حکومتی اراکین کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون عوام کو ان کا حق دلانے اور خالصہ سرکار کا پرانا نظام ختم کرنے کی ایک کوشش ہے تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسے عوام دشمن قانون قرار دے کر معاملے کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔
رواں ہفتے منگل کو جب لینڈ ریفارمز ایکٹ کا بل اسمبلی میں پیش کیا گیا تو ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی بھی ہوئی۔
اپوزیشن اور حکومتی اراکین میں بحث و تکرار کے بعد بات ہاتھا پائی تک پہنچی اور حکومتی رُکن نے اپوزیشن رُکن کو جوتے سے مارنے کی بھی کوشش کی گئی۔
لینڈ ریفارمز ایکٹ 2025 کے حوالے سے اپوزیشن ارکان کا موقف ہے کہ یہ قانون دراصل سرکار کا عوامی اراضی کو ہڑپ کرنے کا منصوبہ ہے جس کے تحت عوامی ملکیت سرکار کے پاس چلی جائی گی مگر حکومت کا کہنا ہے کہ لینڈ ریفارمز میں عوام کو زمینوں کا مالک بنایا جا رہا ہے۔
اپوزیشن لیڈر کاظم میثم کا موقف ہے کہ ’لینڈ ریفارمز بل کو پاس کرنے میں جلد بازی سے کام لیا گیا جس کے نتائج مستقبل میں خوف ناک ہوں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حکومت نے مجوزہ بل میں امپارٹیبل کامن لینڈ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ امپارٹیبل لینڈ میں دریا، جھیل، گلیشئیرز اور آبشاریں میں شامل کی گئی ہیں۔‘
اپوزیشن لیڈر کے مطابق یہ اس علاقے کی روایات کے مطابق عوام کی ملکیت ہوتے ہیں جس پر سرکار کا کوئی حق نہیں ہوتا۔

اپوزیشن لیڈر کاظم میثم کا موقف ہے کہ ’لینڈ ریفارمز بل کو پاس کرنے میں جلد بازی سے کام لیا گیا (فائل فوٹو: کاظم میثم، فیس بک)

ان کا کہنا تھا کہ ’بل میں شامل ان مبہم نکات کی وضاحت ضروری تھی۔ بل میں مختص شدہ اراضی کا نکتہ شامل کیا گیا ہےجس کا مقصد عوامی اراضی پر قبضہ کرنا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’ہم ہرگز عوام کی ملکیتی زمین کو سرکار کے حوالے نہیں کریں گے۔ حکومت کو ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر بل پیش کرنا چاہیے تھا۔ لینڈ ریفارمز کرنے میں کوئی قباحت نہیں مگر عوام کو اس سے فائدہ ہونا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے تین ترامیم منظور کی ہیں تاہم اس ایکٹ میں اب بھی نقائص موجود ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت عوامی ردِعمل کا انتظار کرے۔‘
لینڈ ریفارمز ایکٹ کیا ہے؟
لینڈ ریفارمز ایکٹ 2025 دراصل گلگت بلتستان میں بنجر اراضی کی تقسیم  کے لیے قانون سازی ہے جس میں اراضی کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے عوام اور سرکار کی ملکیت کو واضح کیا گیا ہے۔
بل میں 10 فیصد حکومت جبکہ 90 فیصد بنجر اراضی کی ملکیت عوام کو دی گئی ہے۔

حکومتی اراکین کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون عوام کو ان کا حق دلانے کی ایک کوشش ہے (فائل فوٹو: جی بی اسمبلی، فیس بک)

ایکٹ میں کامن لینڈ یعنی مشترک بنجر اراضی کی تقسیم کے لیے ایک کمیٹی بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس کا سربراہ ڈپٹی کمشنر اور کلیکٹر کو بنایا گیا ہے جبکہ متعلقہ حلقے کا رُکن اسمبلی اس کمیٹی کا ممبر ہو گا جبکہ اسسٹنٹ کمشنر ہیڈکوارٹر بھی کمیٹی کا حصہ ہوگا۔ 
اس قانون کے تحت ناقابلِ تقسیم اراضی کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے جس میں پہاڑ ، آبشار ، گلیشئیر اور دریا شامل ہیں۔
لینڈ ریفارمز ایکٹ کے مطابق ناقابل تقسیم اراضی کی ملکیت حکومت کی ہو گی۔
خالصہ سرکار کیا ہے؟
تاریخ دان انور ولی کے مطابق گلگت بلتستان کی اراضی پہلے خالصہ سرکار کی تھی یعنی گلگت بلتستان کی بنجر اراضی حکومت کی ملکیت تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے تو 1799 سے لے کر 1849 تک یہاں سکھوں کی حکومت قائم رہی۔ گلگت کے اندر اور باہر سِکھ سلطنت کی قبضہ کی گئی زمینوں کو خالصہ سرکار اراضی کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘

اپوزیشن جماعتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اراضی عوام سے چھین کر ان پر قبضہ کیا جا رہا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

خالصہ سرکار کے قانون کے تحت گنجان آباد یا خالی زمین پر سرکار کا قبضہ تھا اور یہ قانون آج بھی رائج ہے۔
لینڈ ریفارمز پر اعتراضات؟
سینیئر قانون دان اسلام الدین ایڈووکیٹ کے مطابق لینڈ ریفارمز میں مشترک اراضی کی کمیٹی میں کلیکٹر اور ڈپٹی کمشنر کو سربراہ بنانے پر اعتراض کیا جا رہا ہے کیونکہ اپوزیشن اراکین اسمبلی کا خیال ہے کہ ایم پی اے کو ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ناقابلِ تقسیم اراضی میں پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں اور گلیشیئرز کی نگرانی صوبائی حکومت کو دی جا رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا اس حوالے سے یہ دعویٰ ہے کہ یہ اراضی عوام سے چھین کر ان پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔‘ 
اسلام الدین ایڈووکیٹ کے مطابق لینڈ ریفارمز میں خالصہ سرکار کا خاتمہ کر کے عوام کو مالک بنایا گیا ہے تاہم اپوزیشن محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے تنقید کر رہی ہے۔ 
اپوزیشن اراکین کی جانب سے اس مجوزہ بل پر ایک اور اعتراض بھی اٹھایا گیا ہے جو کہ عوامی اراضی کی تقسیم کے طریقۂ کار پر ہے کہ نئے قانون میں زمین کے انتقال کا سسٹم متعارف کروایا گیا ہے جس کے تحت زمین کی خرید و فروخت یا تقسیم سے قبل متعلقہ تحصیل دار کو درخواست دینا ہو گی جس کی ڈپٹی کمشنر اور لینڈ ریکارڈ کمیشن سے منظوری کے بعد اجازت دی جائے گی۔

امجد حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس نئے قانون کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کو 100 فیصد مالک بنا دیا گیا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

 حکومت کا موقف 
گلگت بلتستان کے حکومتی رُکن امجد حسین ایڈووکیٹ کے مطابق لینڈ ریفارمز ایکٹ ایک تاریخی قانون سازی ہے جس کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کو 100 فیصد مالک بنا دیا گیا ہے۔ اس میں حکومت کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے ’حکومت نے صرف اراضی کے معاملات کو ریگولیٹ کیا ہے تاکہ ایک شفاف نظام کے مطابق عوام کو ملکیت مل سکے۔‘
امجد حسین نے کہا کہ ’خالصہ سرکار کے کالے قانون کے تحت انتقالات میں شہریوں سے بہت زیادتی ہوئی تھی۔ لینڈ مافیا نے ہزاروں ایکڑ زمین پر قبضہ کر لیا تھا مگر اب قانون سازی ہو گئی ہے۔ مستقبل میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔

لینڈ ریفارمز ایکٹ کے مطابق ناقابل تقسیم اراضی کی ملکیت حکومت کی ہو گی (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

انہوں نے مزید کہا کہ ناقابلِ تقسیم اراضی متعلقہ عوام ہی کی ملکیت ہے مگر اس کی نگرانی انتظامیہ کی ذمہ داری ہو گی کیوں کہ ماضی میں کئی قبیلوں کے درمیان اس حوالے سے تنازعات بھی پیدا ہوئے تھے۔ 
خیال رہے کہ گلگت بلتستان کی اپوزیشن جماعت کی جانب سے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کے خلاف احتجاج کی دھمکی بھی دی گئی ہے جو رواں ماہ ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

 

شیئر: