کہتے ہیں کہ جیت کے سو وارث ہوتے ہیں، ناکامی کا کوئی حصے دار نہیں بنتا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات کھیل کا کوئی لمحہ اتنا زوردار، گونج دار اور چمک دار ہو جاتا ہے کہ پورے دن کا کھیل پس پشت چلا جاتا ہے۔
ایسا ہی اتوار کی شام پی ایس ایل فائنل میں لاہور قلندر کی جیت کےساتھ ہو رہا ہے۔
سکندر رضا نے بڑی عزیمت کا مظاہرہ کیا، کٹھن سفر کیا اور آتے ہی بغیر ریسٹ کے میچ کھیلا۔ چار اوورز بھی کرائے اور پھر شان دار ہٹنگ کر کے میچ جتوانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس سے دیگر بہت سی چیزیں اوجھل ہو گئیں۔
سکندر رضا، کوسل پریرا کی بیٹنگ کے بغیر میچ جیتا نہیں جا سکتا تھا، مگر اسی میچ میں اوپنر نعیم اور عبداللہ شفیق کی عمدہ بیٹنگ اور اچھی پارٹنرشپ نے اہم کردار ادا کیا۔
مزید پڑھیں
-
پی ایس ایل کی بحالی چیلنج تھا، کامیاب تکمیل فتح ہے: محسن نقویNode ID: 890172
انہوں نے پہلے 10 اوورز میں اچھا سٹارٹ دیا اور بڑے ٹارگٹ کا نصف کے قریب حاصل کر لیا، بعد میں آنے والوں کو آسانی ہوئی ورنہ اگر ٹاپ آرڈر کو لیپس ہو جاتی تو شاید لاہور قلندر کا وہی حال ہوتا جو کراچی کنگ کا پلے آف میچ میں ہوا۔
لاہور قلندر کی اس کامیابی میں کئی فیکٹرز ہیں، بعض تو ایسے جو کہ پچھلے کئی برسوں کی محنت اور پرعزم کہانی کو بیان کرتے ہیں۔ انہیں دیکھنا اس لیےضروری ہے کہ دراصل ان کی وجہ سے یہ سب ممکن ہوا۔
ٹیم کو فیملی کی حیثیت دینا
یہ کریڈٹ لاہور قلندر کی ٹیم اور مینجمنٹ کو جاتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف ٹیم بنائی بلکہ اسے ایک فیملی کی سی حیثیت دی۔ یہ کم ہوتا ہے، خاص کر ٹی20 لیگز میں، جہاں ہر سال ڈرافٹنگ کےبعد اکثر کھلاڑی بدل جاتےہیں۔
ایک لیگ کو جتوانے والے کھلاڑی اگلے سال کسی دوسری لیگ کی جانب سے اپنی پچھلی ٹیم کےخلاف نبردآزما ہوتے ہیں اور بازی پلٹا دیتے ہیں۔ ایسا لاہور قلندر کے ساتھ بھی ہوتا ہے مگر انہوں نے اپنے کئی اہم کھلاڑیوں کو سینت سینت کر قیمتی ہیرےکی طرح سینے سےلگائے رکھا۔
لاہور قلندر کےکئی کھلاڑی پہلے سال سے ان کے ساتھ کھیل رہےہیں۔ بعض کھلاڑی تو خیر ان کےکرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام ہی کا حصہ ہیں۔جیسے فخرزماں ابتدا ہی سے قلندر کے ساتھ ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف ، زماں خان، ڈیوڈ ویزا، سکندر رضا وغیرہ کئی برسوں سے لاہور قلندر کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ عبداللہ شفیق پر بھی قلندرز نے اعتماد کیا اور انہیں مسلسل مواقع دیے ۔ راشد خان آج کل پی ایس ایل نہیں کھیل رہے، ورنہ وہ بھی تین چار برس مسلسل لاہور قلندر ہی سے کھیلے۔
لاہور قلندر کے مالکان اور کئی برسوں تک ان کے ہیڈ کوچ، ڈائریکٹر عاقب جاوید کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ محبت، شفقت اور اپنائیت کا تعلق رکھا۔ انہیں بھرپور سپورٹ کیا اور ایک فیملی کی طرح معاملات چلائے۔ یہی وجہ ہے کہ کھلاڑیوں نے بھی اپنا سو فی صد بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہی دیا۔ سکندر رضا کو لے لیں۔

خبروں کے مطابق زمبابوے نے اپنا ٹیسٹ میچ ختم کیا تو فوری لاہور قلندر کے مالک ثمین رانا کا سکندر رضا کو فون گیا کہ آپ کی ٹکٹ بک کرا لی گئی ہے، بس فوری نکل آؤ۔ سکندر رضا یا کوئی بھی دوسرا کھلاڑی ہوتا، اس کےپاس معذرت کا مضبوط جواز موجود تھا، مگر یہ ٹیم کے ساتھ ان کا تعلق اور اونر شپ تھی جس نے سکندر رضا کو کئی گھنٹوں کا فضائی سفر کرنے، دبئی میں چند گھنٹے انتظار اور پھر میچ سےچند منٹ قبل گراؤنڈ میں پہنچنے کا کشٹ اٹھانے پر مجبور کیا۔ یہ ریلیشن شپ بنائے رکھنا لاہور قلندر کی مینجمنٹ کو ممتاز بناتی ہے۔
کھلاڑیوں پر انویسٹمنٹ
پاکستان سپر لیگ کی ٹیموں میں سے صرف لاہور قلندر ہی ہے جس نے اتنے بڑے پیمانے پر نوجوان کھلاڑیوں پر انویسٹمنٹ کی اورایک بہت منظم باقاعدہ پلیئر ڈویلپمنٹ پروگرام بنا رکھا ہے۔ نو سال پہلے اس کی بنیاد ڈالی گئی اور بلاشبہ اس پروگرام کے ذریعے کئی ایسے کھلاڑی سامنے آئے جنہوں نے لاہور قلندرز کے لیے میچ وننگ کھلاڑی ہونے کا کردار نبھایا اور وہ قومی ٹیم کے لیے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔
ان میں سب سے نمایاں حارث رؤف ہیں۔ یہ تیز بولر ٹیپ ٹینس کرکٹ کھیلتا تھا اور شاید اسی میں اپنی زندگی کھپا دیتا۔ لاہور قلندر کے ٹرائلز میں عاقب جاوید نے اسے سلیکٹ کیا، اس پر لاہور قلندرز نے بہت محنت کی، عمدہ خوراک کے ساتھ، سپیشل فاسٹ بولنگ ٹریننگ، کوچنگ اور پھر بیرون ملک کھیلنے کے مواقع دیے۔
آج حارث رؤف ایک اہم اور بڑے ٹی ٹوئنٹی بولر کے طور پر سب کے سامنے ہے۔ شاہین شاہ آفریدی انڈر19 سے اوپر آئے مگر لاہور قلندرز نے انہیں گروم کیا اور پی ایس ایل میں بھرپور ایکسپوژر دیا اور پھر وہ قومی ٹیم کا حصہ بنے۔ سلمان ارشاد، عثمان قادر، دلبرحسین، زمان خان، معاذ خان، مرزا طاہر بیگ، محمد نعیم وغیرہ اسی پروگرام کے ذریعے سامنے آئے۔
لاہور قلندرز نے میلبورن کرکٹ کلب اور یارک شائر کے ساتھ معاہدے کر رکھے ہیں، وہ اپنے بعض کھلاڑیوں کو یہاں ٹریننگ کے لیے بھجواتے ہیں، اپنی ٹیموں کو آسٹریلین کلبوں کے ساتھ بھی انٹرایکشن کراتے ہیں جب کہ بعض ایسوسی ایٹ ممالک سے بھی میچز کھلاتے ہیں۔ اس سب کا بہت فائدہ ہوا۔ اس ٹورنامنٹ میں اوپنر کے طور پر محمد نعیم کو موقعہ ملا۔ اسے 2016 میں پک کیا گیا تھا، کئی برسوں کی انویسٹمنٹ کے بعد اس نوجوان کھلاڑی کو گروم کیا گیا اور اس پی ایس ایل میں فائدہ بھی پہنچا۔ یہ وہ بات ہے جو دیگر ٹیموں کو لاہور قلندر سے سیکھنا چاہیے۔

تسلسل سے مواقع دینا
یہ بات صرف لاہور قلندر ہی کے بارے میں کہی جا سکتی ہے کہ وہ بہت تواتر کے ساتھ اپنے کھلاڑیوں کو مواقع دیتے ہیں۔ خاص کر جو کھلاڑی ان کے پلئیرز ڈویلپمنٹ پروگرام کے ذریعے سامنے آئے۔
ابھی محمد نعیم کا ذکر آیا۔ اس نوجوان کھلاڑی کو یہ پی ایس ایل ٹورنامنٹ مسلسل کھلایا گیا۔ ابتدائی چار میچز میں یہ بری طرح ناکام ہوا۔ تجزیہ کاروں نے اس پر تنقید شروع کر دی۔ تب لاہور قلندرز بھی میچز ہار رہے تھے۔ ایک دو بار تو کمنٹیٹرز نے بھی کمنٹری میں کہا کہ لاہور قلندرز اپنے اس اوپنر کو تبدیل نہیں کرے گا حالانکہ یہ ناکام ہو رہا ہے۔ تب یہ بات عجیب لگتی تھی کہ اتنے بڑے ٹورنامنٹ میں ایک نوجوان کھلاڑی اگر پرفارم نہیں کر رہا، مسلسل چار میچز میں وہ ناکام ہوا ہے تو اسے ڈراپ کر دینا چاہیے، اس لیے کہ قلندرز میچز ہار رہے ہیں، ٹورنامنٹ سے آؤٹ نہ ہو جائیں۔ قلندرز کی ٹیم مینجمنٹ نے محمد نعیم پر اپنا اعتماد جاری رکھا۔ پانچویں میچ میں اس نے ففٹی بنا ڈالی۔
مزے کی بات ہے کہ اس کے بعد کے اہم میچز میں اسی محمد نعیم نے جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے عمدہ اننگز کھیلیں۔ خود فائنل میں بھی وہ اچھا کھیلا، عثمان طارق جیسے مسٹری سپنر کو دو شاندار چھکے لگائے، ابتدائی اوورز میں اچھا اور تیز سٹارٹ دیا اور اپنی ٹیم کی جیت میں اہم حصہ ڈالا۔ یہ سب قلندر کی مسلسل سپورٹ کرنے کی پالیسی کے باعث ہی ممکن ہو پایا۔
عبداللہ شفیق کو بھی انہوں نے مسلسل مواقع دیے اور پھر عبداللہ نے اہم میچز میں شاندار اننگز کھیل ڈالیں۔ سکندر رضا جس نے فائنل کے آخری اوور میں کرشمہ تخلیق کیا، اسے بھی قلندرز نے پچھلے کئی برسوں سے اپنے ساتھ رکھا ہے، اسے بھرپور سپورٹ کرتے ہیں، اپنا اہم کھلاڑی بنا رکھا ہے۔ سکندر رضا پر ایسا اعتماد کیا گیا کہ وہ اتنا طویل سفر کر کے آیا اور اسے بغیر ریسٹ کیے کھلا دیا گیا جبکہ اس کے متبادل کے طور پر بنگلہ دیشی سپن آل راؤنڈر مہدی حسن میراز جیسا کھلاڑی موجود تھا۔
اس پی ایس ایل میں قلندر کی ایک اور عمدہ پیش کش سلمان مرزا ثابت ہوا۔ سلمان مرزا پر بھی قلندر نے خاصی محنت اور انویسٹمنٹ کر رکھی تھی۔ اسے آخری چار پانچ میچز میں کھلایا گیا اور سلمان مرزا نے کمال کر دکھایا۔ کراچی کنگ کے خلاف اہم میچ اس نے عمدہ بولنگ سے جتوایا۔ فائنل میں بھی بولنگ ٹھیک کرائی، البتہ آخری اوور میں پٹ گیا۔ سلمان مرزا مگر مجموعی طور پر لاہور قلندرز کا اثاثہ ثابت ہوا۔
پی ایس ایل کے دو سیزن ایسے گزرے جس میں لاہور قلندرز کے کپتان سہیل اختر تھے، وہ قومی ٹیم کی جانب سے نہیں کھیلے۔ وہ شاید واحد پی ایس ایل کپتان تھے جو قومی ٹیم سے کھیلے بغیر ہی ایک پی ایس ایل ٹیم کی کپتانی کرتے رہے۔
ویسے مسلسل ناکامی کے باوجود سپورٹ کیے جانے کے حوالے سے عاقب جاوید سرفہرست ہیں۔ جب قلندرز مسلسل ناکام ہو رہی تھی، آخری نمبرز پر آ جاتی، تب بھی انہوں نے عاقب جاوید پر اعتماد برقرار رکھا، اسے سپورٹ کرتے رہے اور پھر عاقب جاوید ہی کی کوچنگ میں لاہور قلندرز نے مسلسل تین فائنل کھیلے اور دو ٹرافیاں جیت لیں۔ عاقب جاوید اب پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ ہیں، اس لیے انہیں لاہور قلندرز کی ٹیم چھوڑنا پڑی، ورنہ قلندرز کی مینجمنٹ ان کے ساتھ ہی کھڑی تھی۔
قلندرز کو اپنی ایک کمزوری دور کرنی چاہییے
لاہور قلندرز کی ٹیم اچھی، مضبوط اور بیلنس تھی، مگر اس میں کوالٹی سپن بولنگ کی کسی قدر کمی دیکھی گئی۔ یہ مسئلہ قلندرز کے ساتھ عرصے سے چل رہا ہے۔ دراصل عاقب جاوید بنیادی طور پر فاسٹ بولر تھے، انہوں نے اپنے ٹریننگ پروگرامز میں فاسٹ بولرز پر توجہ دی اور اچھے کھلاڑی تیار کر لیے، سپن پروگرام بھی جاری رہا مگر کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کر پائے۔ یہ کمزوری اور خامی ہے۔
لاہور قلندرز کو مقامی سطح پر اپنے پروگرام کے ذریعے یا ویسے ہی ڈومیسٹک سسٹم سے ڈھونڈ کر اچھے سپنرز خاص کر مسٹری سپنرز شامل کرنے چاہئیں۔
دراصل قلندرز کئی برسوں تک افغان سپنر راشد خان پر تکیہ کرتی رہی۔ راشد خان نے قلندرز کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا، مگر وہ فارن پلیئر ہیں جن کی اپنی قومی ٹیم کے ساتھ ذمہ داریاں رہتی ہیں۔ وہ کئی بار پی ایس ایل نہیں کھیل پائے۔ اس سال رشاد حسین کو کھلانا بھی اچھا رہا، اس نے وکٹیں بھی لیں۔ لاہور قلندرز کو اس کے باوجود سفیان مقیم، ابرار احمد، عثمان طارق جیسے اچھے مقامی مسٹری سپنر دریافت کرنے ہوں گے۔ ایسے جو وکٹ ٹیکر ہوں، میچ ونر ہوں۔ اگر غیرملکی سپنرز پر بھروسہ کریں گے تو کئی بار مطلوبہ نتائج نہیں نکل پاتے۔
خیر اس سب کے لیے لاہور قلندر کے پاس وقت ہے، اگلا پی ایس ایل ایک سال بعد ہی ہونا ہے۔ تب تک بطور فاتح وہ اپنے اچھے وقت سے لطف اٹھائیں۔ قلندرز بلاشبہ اس جیت اور فتح کے لئے ڈیزرو کرتے ہیں۔