پاکستان بالخصوص پنجاب کے گاؤں دیہات میں خاندانی دشمنیاں اور لڑائی جھگڑے کوئی نئی بات نہیں۔ کئی دشمنیاں تو نسل در نسل جاری رہتی ہیں اور بار بار صلح کے باوجود کسی نہ کسی وقت نئے تنازع کے ساتھ دوبارہ شروع ہو جاتی ہیں۔
ماضی میں مخالفین جب بھی کسی موقع پر اپنے دشمن کو کوئی پیغام بھجواتے، تو اس کے لیے گاؤں کے کسی فرد کو ان کے ہاں بھیجا جاتا تھا۔ اگر یہ پیغام کسی دھمکی یا کسی معاملے پر خبردار کرنے سے متعلق ہوتا تو اس کے لیے گاؤں کے ’کامے‘ کا انتخاب کیا جاتا تھا، اور اگر یہی پیغام صلح صفائی کے لیے ہوتا تو پھر گاؤں یا علاقے کے معززین کے ذریعے یہ پیغام پہنچایا جاتا۔
جدید دور کے تقاضوں نے پیغام رسانی کے اطوار بھی بدل دیے ہیں اور دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی خاندان سوشل میڈیا، بالخصوص ٹک ٹاک کا استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کو پیغام بھیجتے، دھمکیاں اور طعنے دیتے اور انہی ویڈیوز کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
سوشل میڈیا کے کروڑوں صارفین کے پاسورڈ کیسے چوری ہوئے؟Node ID: 890178
ضلع گجرات کا گاؤں ڈنگہ خورد خاندانی دشمنیوں کے لیے مشہور ہے جہاں نسل در نسل دشمنیاں کئی درجن افراد کی جان لے چکی ہیں۔ رواں سال دو مارچ کو اسی گاؤں میں بیک وقت چھ افراد کو قتل کر دیا گیا۔
معلوم ہوا ہے کہ یہ قتل بھی سوشل میڈیا، بالخصوص ٹک ٹاک پر ایک دوسرے کو دھمکیوں کا نتیجہ تھے۔ راسب گجر اور اختر گجر، جو کہ بظاہر ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں لیکن زمین جائیداد کے جھگڑے میں یہ دونوں خاندان ایک دوسرے کے جانی دشمن بن چکے ہیں۔ اختر گجر گروپ نے مبینہ طور پر 9 ماہ میں راسب گجر گروپ کے 9 افراد کو قتل کیا ہے۔
پولیس تحقیقات اور علاقہ کے لوگوں کے مطابق اس نئی دشمنی کا آغاز ٹک ٹاک پر ایک دوسرے کے لیے ویڈیو پیغامات اپلوڈ کرنے، ان میں ایک دوسرے کو دھمکانے، قتل کی دھمکیاں دینے سمیت دیگر اشتعال انگیز باتوں سے ہوا۔
حالیہ قتل کے واقعات کے بعد بھی ٹک ٹاک کے استعمال میں کوئی کمی نہیں آئی۔ مقتولین کے ورثا ٹک ٹاک کو اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بتانے کے لیے اسکتعمال کر رہے ہیں۔ جہاں راسب گجر علاقے بھر کے ٹک ٹاکرز کو انٹرویو دیتے ہوئے تمام تر واقعات سے آگاہ کرتے ہیں، وہیں اس واقعے میں مفرور اختر گجر، ان کے صاحبزادے اور قریبی رفقا سوشل میڈیا پر راسب گجر اور ان کے ساتھیوں کو للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی ٹک ٹاک ویڈیوز ہزاروں کی تعداد میں دیکھی اور سنی جاتی ہیں۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح ٹک ٹاک کو پورے گاؤں کے ماحول کو دہشت اور وحشت میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ لیکن یہ سلسلہ رکنے والا نہیں بلکہ کئی دیگر دیہات بھی اس کی زد میں آ رہے ہیں۔

ضلع گجرات ہی کا ایک اور گاؤں حاجی چک ہے جہاں دو ٹک ٹاکرز بیرون ملک بیٹھ کر ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
پولیس کے مطابق معاملہ کچھ یوں ہے کہ شکیل احمد اور ناصر عباس دونوں ایک ہی گاؤں حاجی چک کے رہائشی ہیں۔ دونوں کے خاندانوں کے درمیان دشمنی نہیں لیکن کبھی صلح بھی نہیں رہی۔
کچھ عرصہ قبل شکیل احمد نے ناصر عباس کے والد عباس ممبر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں دھمکی آمیز ویڈیوز اپلوڈ کرنا شروع کیں جن میں نازیبا زبان بھی شامل ہوتی تھی۔
ناصر عباس نے بھی ان ویڈیوز کا جواب دینا شروع کیا اور ’ان کی زبان میں بھی وہی سختی، تلخی اور گالیاں شامل تھیں جو شکیل ان کو یا ان کے خاندان کو دیتے تھے۔‘
بات اگر یہیں رک جاتی تو کسی کا کوئی نقصان نہ ہوتا تاہم یہ معاملہ تھانے، کچہری اور سائبر کرائم تک پہنچ گیا۔
ناصر عباس کے والد حاجی عباس ممبر نے شکیل احمد کے خلاف پولیس اور سائبر کرائم سے رجوع کیا۔ اس دوران جب پولیس نے انکوائری شروع کی تو مقامی روایت کے مطابق گاؤں کا جو فرد بھی ان کا ساتھ دیتے ہوئے انکوائری میں شامل ہوتا، شکیل ان کو ٹک ٹاک ویڈیوز کے ذریعے دھمکاتا، گالیاں دیتا اور ان کے خاندان، یہاں تک کہ بہن بیٹیوں کے بارے میں بھی نامناسب گفتگو پر مبنی ویڈیوز اپلوڈ کرتا۔

جب ایسی ویڈیوز اپلوڈ ہوئیں تو ان خاندانوں کے لوگوں نے بھی ٹک ٹاک پر ہی جواب دینا شروع کر دیا اور ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کرنا شروع کر دیں۔ ان ویڈیوز میں بھی شکیل اور اس کے اہلِ خانہ کے بارے میں کچھ اچھی باتیں نہیں تھیں۔
شکیل احمد نے نہ صرف اپنے گاؤں کے کئی خاندانوں کے بارے میں دھمکی آمیز اور نازیبا الفاظ پر مبنی ویڈیوز بنائیں بلکہ انہوں نے علاقائی پولیس اور اس کے حکام کو بھی کئی بار للکارا۔
اس معاملے میں جب پولیس سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ اس وقت پاکستان میں موجود نہیں، اس لیے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
البتہ حاجی چک گاؤں کے کئی معزز خاندانوں اور مقامی پولیس کے حکام نے سائبر کرائم اتھارٹی سے رابطہ کر کے ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق اس وقت حاجی چک کا پورا گاؤں ایک طرف جبکہ شکیل دوسری طرف کھڑا ہے اور تمام لوگ ویڈیوز کے ذریعے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہیں اور ٹک ٹاک کا استعمال کرتے ہوئے اپنے پیغامات ایک دوسرے تک پہنچاتے ہیں۔
ان کے مطابق اس تناظر میں بھی قانونی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ حال ہی میں منڈی بہاؤالدین کے گاؤں موجیانوالہ میں بھی پیش آیا ہے، جہاں دو چچازاد بھائی ٹک ٹاک پر آمنے سامنے آئے ہیں اور انہوں نے انتہائی سطحی قسم کے مسئلے کو لے کر کئی دن تک ٹک ٹاک کو پیغام رسانی کا ذریعہ بنایا اور ایک دوسرے کے خلاف ویڈیوز بناتے رہے۔
اگرچہ وہ دونوں بھائی بھی بیرون ملک مقیم ہیں لیکن ایک ٹک ٹاکر جاوید اقبال نے ویڈیو اپلوڈ کی اور اپنے چچازاد بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’تمہارے جانور میری گندم اجاڑ رہے ہیں، اس لیے جتنا نقصان ہوا ہے اس کے ازالے کے طور پر میرے گھر 10 بوریاں گندم پہنچا دو۔‘

بیرون ملک بیٹھے ان کے چچازاد بھائی یاسر کسانہ نے جوابی ویڈیو بنائی اور کہا کہ ’آپ کو کسی نے غلط اطلاع دی ہے کہ ہمارے جانوروں نے آپ کی کوئی گندم کھائی ہے اور اگر کھائی بھی ہے تو 10 بوریاں گندم کا تقاضا ایسے کر رہے ہو جیسے گھوڑوں نے گندم نہیں بلکہ آلو بخارا کھا لیا ہے۔‘
ضلع گجرات ہی سے تعلق رکھنے والے ایک ٹک ٹاکر اظہر امرہ گجراتی کچھ ماہ سے گجرات میں ’ویر (دشمنی) مکاؤ مہم‘ چلا رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ کئی دہائیوں سے دشمنی کا شکار خاندانوں اور افراد سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔
جب ان کے نوٹس میں ٹک ٹاک پر جاری ان دشمنیوں کا معاملہ آیا تو انہوں نے متعلقہ افراد اور خاندانوں سے رابطے بھی کیے۔ جس کے جواب میں باقی جگہوں پر تو ابھی اس چیز کا اثر نہیں ہوا، البتہ موجیانوالہ سے تعلق رکھنے والے چچازاد بھائیوں نے سیز فائر کر دیا ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اظہر امرہ گجراتی نے کہا کہ ’ٹک ٹاک پر گالم گلوچ پر مبنی ویڈیوز کی وجہ سے گاؤں کے گاؤں دشمنیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔ ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ لوگوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں گالیاں اور دھمکیاں دیں یا کسی دوسرے کی ماں بہن کا ذکر کیا، جس کے بعد بات بہت آگے تک چلی گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ڈنگہ خورد کے راسب گجر اور دیگر سے رابطہ کر کے ان سے بھی گزارش کی ہے کہ وہ اپنی دشمنی اگر ختم نہیں کر سکتے تو کم از کم ٹک ٹاک پر ایک دوسرے کی ماؤں بہنوں کا ذکر کرنا بند کر دیں۔‘
انہوں نے سوشل میڈیا صارفین، بالخصوص علاقے کے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ ’وہ ایسے تمام اکاؤنٹس کو رپورٹ کریں جو نامناسب زبان، دھمکیوں اور دشمنی کو ہوا دینے والی ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں۔‘