حساس اداروں اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان سے بین الاقوامی سطح پر سرگرم سائبر کرائمز میں ملوث گروہ کے 14 افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
’ہارٹ سینڈر گروپ‘ کے نام سے کام کرنے والا یہ گروہ مبینہ طور پر کروڑوں ڈالر کے فراڈ میں ملوث پایا گیا ہے۔ اس گروہ کی نشاندہی امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی اور ہالینڈ کی ڈچ پولیس نے اپنی تفتیش کے دوران کی تھی جس کے بعد پاکستان میں اس گروہ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق امریکہ اور یورپ میں سرگرم اس گروہ کے خلاف ایف بی آئی اور ڈچ پولیس نے ایک مشترکہ تفتیش کے دوران ثبوت اکٹھے کیے اور پاکستان میں ان کے آپریشنز کی نشاندہی کی۔
مزید پڑھیں
-
نشے کے عادی علاج کے باوجود نشہ کیوں شروع کر دیتے ہیں؟Node ID: 889825
رپورٹ ملنے پر نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل نے ملتان کی مقامی ٹیم کو خصوصی ذمہ داری سونپی، جس نے گروہ کی سرگرمیوں کی نگرانی اور تکنیکی تجزیے کے بعد 21 ارکان پر مشتمل اس گروپ کو بے نقاب کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ اس بین الاقوامی سائبر کرائم گروہ کے سرغنہ کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ کے علاقے فتح پور سے ہے، جس نے لاہور کے علاقے بحریہ ٹاؤن اور ملتان کی سبزہ زار کالونی میں اپنے نیٹ ورک کے لیے مراکز قائم کر رکھے تھے، جہاں سے وہ اپنے کارندوں کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر جعل سازی کی سرگرمیاں انجام دے رہا تھا۔‘
این سی سی آئی اے حکام کے مطابق اس گروہ نے مبینہ طور پر امریکی شہریوں اور دیگر غیر ملکیوں کو کروڑوں ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔
ایف بی آئی نے امریکہ میں ان جرائم کی باقاعدہ تفتیش کی، جبکہ یورپ کے کم از کم ایک ملک ہالینڈ میں بھی ان کی کارروائیوں کی شکایات ملنے پر وہاں کی پولیس نے الگ سے تفتیش کی، جو بعد ازاں ایف بی آئی کے ساتھ مل کر پاکستان کی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی سے رابطے کا باعث بنی۔
یہ گروہ کام کیسے کرتا تھا؟
ہارٹ سینڈر گروپ ایک بین الاقوامی سائبر کرائم نیٹ ورک تھا جو پاکستان سے چلایا جا رہا تھا۔ یہ گروہ مختلف طریقوں سے دنیا بھر میں لوگوں کے ساتھ مالی جعل سازی کرتا تھا، جن میں جعلی ویب سائٹس، فشنگ ای میلز، اور ڈیجیٹل فراڈ شامل تھا۔

یہ گروہ نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی سرگرم تھا، اور اپنے مالی لین دین کو پوشیدہ رکھنے کے لیے بین الاقوامی کارندوں اور جعلی فرنٹ کمپنیوں کا سہارا لیتا تھا۔ گروہ کا مقصد مسلسل اور منظم طریقے سے لوگوں کو دھوکا دے کر بھاری رقوم ہتھیانا تھا۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کی ٹیم نے لاہور کے پوش علاقے میں مختلف گھروں پر کامیاب چھاپے مارے، جو اس گروہ کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو رہے تھے۔ چھاپوں کے دوران بڑی تعداد میں موبائل فونز، لیپ ٹاپس، ڈیٹا سٹوریج ڈیوائسز اور دیگر ڈیجیٹل شواہد اکھٹے کیے گئے۔
گرفتاریاں اور مقدمات
اب تک اس گروہ کے 14 کارندے گرفتار کیے جا چکے ہیں، جن میں محمد اسلم، عدیل عزیز، اسامہ نواز، عبدالمعیز اور شعیب نذیر سمیت دیگر شامل ہیں۔ ان افراد پر پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) اور تعزیراتِ پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
حکام کے مطابق گروہ کے سرغنہ کے زیرِ استعمال کروڑوں روپے مالیت کی قیمتی گاڑیاں، ذاتی جائیداد اور دیگر اثاثے سرکاری تحویل میں لے لیے گئے ہیں۔

اس کے خلاف مالیاتی جرائم کی الگ سے تفتیش جاری ہے تاکہ اس کی غیرقانونی دولت اور بینکنگ ٹریکنگ کو سامنے لایا جا سکے۔
مستقبل میں مزید گرفتاریاں متوقع
حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد سے تفتیش جاری ہے، جن سے مزید انکشافات کی توقع ہے۔ ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ گروہ نے درجنوں جعلی ویب سائٹس اور ای میل کمپینز کے ذریعے بیرون ممالک میں موجود افراد کو نشانہ بنایا اور ان کے بینک اکاؤنٹس، شناختی تفصیلات اور دیگر حساس معلومات چرا کر فراڈ کیا۔
اس کارروائی کو پاکستان میں سائبر کرائم کے خلاف ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، جو نہ صرف ملکی سطح پر ملزموں کو قانون کی گرفت میں لانے کا ذریعہ بنی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے تفتیشی اداروں کی ساکھ کو بھی بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ مزید گرفتاریاں اور ڈیجیٹل فارنزک تجزیہ جاری ہے، جس کے نتائج آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے۔