پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی حکومت نے سرکاری یونیورسٹیوں میں مالی بحران کے پیش نظر اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہوں میں بڑی کٹوتی کر لی ہے۔
حکومت کے اس فیصلے کے خلاف یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین نے احتجاج شروع کر دیا اور ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے فیصلہ واپس نہ لینے کی صورت میں تمام یونیورسٹیاں مکمل بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔
بلوچستان کی سرکاری یونیورسٹیاں گزشتہ کئی برسوں سے شدید مالی بحران کا شکار ہیں اور اساتذہ و ملازمین کئی کئی ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی، پنشن کے بقایاجات اور بجٹ میں کٹوتیوں جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔
ایسے میں حکومت بلوچستان نے ایک نیا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں یوٹیلیٹی، ہاؤس ریکوزیشن، ہارڈشپ، ٹیکنیکل سبجیکٹ اور دیگر خصوصی الاؤنسز ختم کر کے ان کی جگہ ’پبلک سیکٹر یونیورسٹیز ( پی ایس یو )الاؤنس‘ نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے جو یکم جون 2025 سے مؤثر ہو گا۔
مزید پڑھیں
-
’امید کا پیغام‘، بلوچستان کی پہلی ہندو اسسٹنٹ کمشنرNode ID: 889381
محکمہ کالجز، ہائیر اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن کی جانب سے 22 مئی کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پی ایس یو الاؤنس کوئٹہ میں واقع یونیورسٹیوں کے اساتذہ و ملازمین کو سنہ 2022 کے بنیادی پے سکیل کی ابتدائی تنخواہ کے 25 فیصد جبکہ دیگر اضلاع میں 35 فیصد کے حساب سے دیا جائے گا۔ تاہم یہ الاؤنس فکس ہو گا اور آئندہ کسی بھی تبدیلی کے لیے صوبائی کابینہ سے منظوری لینا ہو گا۔ کنٹریکٹ، ایڈہاک اور ٹی ٹی ایس اسٹاف کو یہ الاؤنس نہیں ملے گا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق یہ الاؤنس پنشن یا گریجویٹی میں شامل نہیں ہو گا۔ سٹڈی لیو یا غیرمعمولی رخصت کے دوران بھی الاؤنس نہیں ملے گا۔
حکومت بلوچستان کے محکمہ خزانہ نے بھی ہدایت جاری کی ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (اور حکومت بلوچستان کی جانب سے یونیورسٹیوں کو دی جانے والی گرانٹ اِن ایڈ کو صرف تنخواہوں، الاؤنسز اور پنشنز کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جائے۔ دیگر اخراجات کے لیے یونیورسٹیوں کو اپنے وسائل سے فنڈز پیدا کرنے ہوں گے۔
حکومت کا موقف ہے کہ اس اقدام سے یونیورسٹیوں کی مالی نظم و ضبط بہتر ہو گا اور ان میں خود انحصاری کی روایت فروغ پائے گی۔
تاہم اس فیصلے پر یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ملازمین میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جنہوں نے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا ہے۔
پیر کو کوئٹہ کی بلوچستان یونیورسٹی، یونیورسٹی لا کالج اور دیگر تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور ملازمین نے کلاسز اور امتحانات کا بائیکاٹ کیا۔
اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری پروفیسر فرید اچکزئی کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے یہ فیصلہ واپس نہ لیا تو اگلے پیر سے صوبے بھر کی تمام یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے گا۔
پروفیسر فرید کے مطابق بلوچستان کی یونیورسٹیاں گزشتہ تین چار برسوں سے بجٹ اور فنڈز کی شدید کمی کا سامنا کر رہی ہیں۔ صوبائی حکومت 950 ارب روپے کے سالانہ بجٹ میں صرف پانچ ارب روپے 12 سرکاری یونیورسٹیوں کے لیے مختص کرتی ہے جبکہ ضرورت 15ارب سے زائد کی ہے۔ صرف بلوچستان یونیورسٹی کی سالانہ تنخواہوں کی ضروریات ہی ساڑھے چار ارب روپے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی کئی ملازمین مہینوں سے تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے ادھار پر گزارا کر رہے تھے، اب الاؤنسز ختم کرکے ان کی تنخواہوں میں 30 سے 40 فیصد تک کی کٹوتی کر دی گئی ہے۔
فرید اچکزئی کے مطابق گریڈ سات تک ملازمین کی اوسط تنخواہ 60 ہزار روپے ہے جن میں 20 سے 25 ہزار روپے مختلف الاؤنس کی مد میں شامل ہوتے تھے جو اب انہیں نہیں ملیں گے۔اسی طرح گریڈ 18 اور 19 کے اساتذہ جن کی تنخواہیں اوسطاً ایک لاکھ 70 ہزار روپے تھیں، ان میں 50 سے 70 ہزار روپے کمی کی گئی ہے۔
گریڈ 20 اور 21 کے پروفیسرز جن کی تنخواہیں اڑھائی سے تین لاکھ روپے کے درمیان تھیں، ان میں ایک لاکھ سے ایک لاکھ 20 ہزار روپے یعنی تقریباً 30سے 40 فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ صوبائی حکومت کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد ہائر ایجوکیشن کے اختیارات تو حاصل کر لیے گئے مگر ان کے ساتھ جڑی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے آمادگی نہیں۔‘
’حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ تنخواہیں تو فراہم کی جائیں گی لیکن بجلی، گیس کے بلز، پٹرول اور دیگر اخراجات خود پورے کریں حالانکہ یونیورسٹیاں کاروباری ادارے نہیں بلکہ تعلیمی ادارے ہیں۔‘
فرید اچکزئی کا کہنا تھا کہ ’اگر فیسوں میں اضافہ کیا گیا تو بلوچستان جیسے غریب صوبے میں اعلیٰ تعلیم مزید ناقابل رسائی ہو جائے گی۔‘
بلوچستان یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد لطیف نے اس فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے عمر بھر تدریس کی خدمت اس امید پر کی کہ بڑھاپے میں کچھ سہارا ہو گا، ریٹائرڈمنٹ پر کوئی گھر خرید لیں گے یا بچوں کی شادیاں کریں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اب صورتحال یہ ہے کہ درجنوں ریٹائرڈ پروفیسرز اپنے بقایاجات کے منتظر ہیں اور موجودہ ملازمین کی تنخواہوں میں واضح کٹوتیاں کر دی گئی ہیں۔
ڈاکٹر لطیف کے مطابق تدریسی شعبے سے وابستہ افراد ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں، نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اب یونیورسٹیوں میں پڑھانا نہیں چاہتے جس سے مستقبل میں اعلیٰ تعلیم کا معیار مزید گرنے کا خدشہ ہے۔
ان کے مطابق ’یہ ہماری نہیں بلکہ بلوچستان کی آنے والی نسلوں کی امیدیں توڑنے کے مترادف ہے‘
اساتذہ تنظیموں نے ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے فیصلہ واپس نہ لیا تو اگلے ہفتے سے بلوچستان کی تمام جامعات مکمل بند کر دی جائیں گی۔