پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے صوبے میں ’غُنڈہ ایکٹ‘ کے ذریعے ’غُنڈوں‘ کو قابو کرنے کا فیصلہ ہے۔
اس قانون کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جو جلد ہی پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ وزارت قانون نے اس قانون کا نام ’پنجاب کنٹرول آف غنڈہ ایکٹ 2025‘ رکھا ہے۔
اس نئے قانون کے تحت حکومت کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ مجرمانہ سرگرمیوں اور سماج مخالف رویے میں ملوث، امن عامہ کے لیے خطرہ بننے والے افراد کو غنڈہ قرار دے سکے گی۔
مزید پڑھیں
اردو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق اس قانون میں منشیات فروشی، جوا، بھتہ خوری، سائبر کرائم، ہراسیت، منظم مجرمانہ سرگرمی، جعلی دستاویزات کے استعمال، سوشل میڈیا پر اسلحے کی نمائش اور سرکاری عہدیدار کا بہروپ بدلنے والوں کو غنڈہ قرار دیا جا سکے گا۔
تاہم اس قانون میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ سائبر کرائم میں ملوث افراد ’سائبر غُنڈے‘ کہلائیں گے یا نہیں۔ اس نئے قانون میں کسی بھی شخص کو غنڈہ قرار دینے کا اختیار ضلعی انٹیلی جنس کمیٹی کے پاس ہوگا۔
یہ کمیٹی جس بھی شخص کو غُنڈا/بدمعاش قرار دے گی اس کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک، بینک اکاؤنٹس منجمد، ڈیجیٹل آلات ضبط، اسلحہ لائسنس کینسل اور اسے نو فلائی لسٹ میں شامل کیا جا سکے گا۔
اسی طرح ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے احکامات کی خلاف ورزی پر 3 سے 5 سال قید اور 15 لاکھ تک جرمانہ بھی عائد کیا جا سکے گا۔ بار بار جرم کرنے پر مجرمان کو 7 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے تک کے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔

اس نئے قانون میں غنڈوں کی شناخت، نگرانی اور روک تھام کے لیے جامع قانونی فریم ورک بھی بنایا گیا ہے۔ مجوزہ ایکٹ میں غنڈوں، بدمعاشوں کی قانونی شناخت واضح کی گئی ہے۔
قانون کے مسودے میں غُنڈے کی تعریف ایسے شخص کے طور پر کی گئی ہے جو عادتاً بے نظمی، مجرمانہ سرگرمی یا سماج مخالف رویے میں ملوث، امن عامہ کے لیے خطرے اور عوامی پریشانی کا باعث بننے والا ہے۔ تاہم اس ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو غنڈہ قرار دینے کا اختیار ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کو دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پنجاب میں محکمہ داخلہ نے ہر ضلعے کی سطح پر امن و امان قائم رکھنے کے لیے اعلٰی اختیارتی کمیٹیاں بنا رکھی ہیں۔ جن کا سربراہ ہر ضلعے کا ڈی پی او ہوتا ہے۔ اس کمیٹی میں ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر کے علاوہ تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندے موجود ہیں۔
کسی بھی شخص کو غُنڈہ ڈکلئیر کرنے کے لیے یہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی اس شخص سے متعلق تمام اداروں کی رپورٹس کا مشاہدہ کرے گی۔
اس قانون کے مطابق کسی شخص کو غنڈہ قرار دینے کے بعد ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی اس شخص پر متعدد پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔ جبکہ کم سے کم سزا کے طور پر غنڈہ قرار دیے جانے والے شخص سے مستقبل میں اچھے سلوک کی یقین دہائی پر ایک ضمانتی بانڈ طلب کیا جا سکتا ہے۔ خلاف ورزی کرنے پر بانڈ ضبط ہو جائے گا۔
اسی طرح غنڈے بدمعاش پر حساس عوامی مقامات پر جانے پر پابندی عائد کرنے کا استحقاق بھی پولیس کے پاس ہوگا۔
اس مجوزہ ایکٹ میں غنڈوں کی ٹیکنیکل سرویلنس کی اجازت بھی قانون میں شامل کی گئی ہے۔ غنڈوں کی نگرانی کے لیے ان کا ڈیجیٹل مانیٹرنگ اور بائیومیٹرک ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جا سکے گا۔

تاہم اس قانون میں یہ گنجائش بھی رکھی گئی ہےکہ غُنڈہ قرار دیا جانے والا شخص ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے فیصلے کے خلاف ڈویژنل، صوبائی یا اپیل کمیٹیوں میں نظرثانی اپیل دائر کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سربراہی میں قائم ٹریبونل اپیل پر سماعت کرے گا۔
ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب کا کہنا ہے کہ ’مجوزہ قانون عوامی تحفظ کے لیے عادی مجرموں کی منفی سرگرمیوں کو مؤثر انداز میں روکے گا۔‘
مجوزہ ایکٹ صوبہ بھر میں امن و امان کے قیام اور شہریوں کے تحفظ کا ضامن ہوگا جسے جلد منظوری کے لیے صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
پنجاب میں غُنڈہ ایکٹ اس سے پہلے 1959 سے نافذالعمل ہے۔ تاہم اس کا دائرہ عمل انتہائی محدود ہے۔ اس نئے قانون کے بعد پرانا قانون خود بخود ختم ہو جائے گا۔