Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مختصر کیریئر میں جنونی جذبے سے کام کرنے والے ہدایت کار اعظم محبوب خان

محبوب خان اداکاری کے رموز سے گہری آگاہی رکھتے تھے (فائل فوٹو: فلم ہیریٹیج فلم فاؤنڈیشن)
یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو اداکار بننے کے اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لیے وہ دو بار گھر سے بھاگا۔ وہ جب دوسری بار گھر سے بھاگ کر بمبئی آیا تو اس کی جیب میں چند روپے تھے مگر آنکھوں میں چند خواب تھے اور کچھ کر گزرنے کا عزم۔
کہا جاتا ہے کہ وہ گجراتی کے سوا کوئی دوسری زبان نہ جانتا تھا اور تعلیم بھی کچھ خاص نہ تھی مگر جواں جذبوں کے ساتھ جب اس نے فلمی دنیا میں بطور ایکسٹرا قدم رکھا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ اُس کے خوابوں کی تعبیر اُس سے چند قدم ہی دور تھی۔
یہ بالی وڈ کی تاریخ کے عظیم ہدایت کار محبوب خان کی سرگزشت ہے جو انڈین ریاست گجرات کے ایک چھوٹے سے شہر بلی موریا میں پیدا ہوئے۔   
محبوب خان نے اپنے کیریئر کا آغاز 1920 کی دہائی میں اردشیر ایرانی کی ’امپیریل فلم کمپنی‘ میں ایکسٹرا کے طور پر کیا۔
یوں روزگار کا مسئلہ حل ہوا تو وہ ایک بار پھر اپنے خوابوں کو پانے کی جستجو کرنے لگے۔ اس زمانے میں اُن کو غیرمنقسم ہندوستان کی پہلی بولتی فلم ’عالم آرا‘ میں کام ملنے ہی لگا تھا مگر بات بن نہ سکی۔
اس فلم کے ہدایت کار اور پروڈیوسر اردشیر ایرانی ہی تھے جنہوں نے سال 1931 میں جب ایک اور پروڈکشن ہاؤس ساگر مووی سٹون قائم کیا تو محبوب خان کا اس نئی کمپنی میں تبادلہ کر دیا گیا اور یوں اُن کے کامیاب سفر کا آغاز ہوا۔

محبوب خان اداکاروں کو چہرے کے تأثرات اور جسمانی حرکات خود ادا کر کے دکھانے کے لیے مشہور تھے (فائل فوٹو: فلم ہسٹری آرکائیوز)

ہوا کچھ یوں کہ اُن کا لکھا ہوا سکرپٹ کمپنی کے مالکان کو اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اس پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا جس کی ہدایات بھی محبوب خان نے ہی دیں۔
یہ فلم ’الہلال‘ تھی جس کا انگریزی ٹائٹل ’ججمنٹ آف اللہ‘ تھا۔ اس فلم کی ریلیز کے ساتھ ہی محبوب خان کے بطور ہدایت کار کامیاب فلمی سفر کا آغاز ہوا مگر ان کا اداکار بننے کا خواب تشنہ ہی رہا۔
محبوب خان اداکاری کے رموز سے گہری آگاہی رکھتے تھے۔
اداکار دلیپ کمار، جنہوں نے محبوب خان کے ساتھ فلموں  ’انداز‘، ’آن‘ اور ’امر‘ میں کام کیا، اپنی سوانح عمری میں یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ ’اداکاروں کو چہرے کے تأثرات اور جسمانی حرکات خود ادا کر کے دکھانے کے لیے مشہور تھے۔‘
یوں کہہ لیجیے، وہ پہلے خود سین کر کے دکھاتے تاکہ اداکار ان کرداروں کو بہتر طور پر نبھا سکیں جو ہدایت کار کے ذہن میں ہوتے تھے۔
اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’وہ لوگ جو ’مدر انڈیا‘ کو محبوب خان کا واحد تعارف سمجھتے ہیں، اُنہیں چاہیے کہ وہ ’انداز‘، ’آن‘ اور ’امر‘ جیسی فلمیں ضرور دیکھیں۔‘

سال 1940 میں ریلیز ہوئی فلم ’‘عورت‘ ایک کسان کی اپنی زمین سے محبت کا نغمہ ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

’ان تینوں فلموں میں ایک قدرِ مشترک ہے: اداکار دلیپ کمار، موسیقار نوشاد اور سنیماٹوگرافر فریدون ایرانی۔ آپ ان فلموں کو ایک غیر رسمی ٹرائیلوجی کہہ سکتے ہیں، حالاں کہ ہدایت کار کا ایسی کوئی سیریز بنانے کا ارادہ نہیں تھا۔‘
محبوب خان نے بطور ہدایت کار ’الہلال‘ کے بعد ’منموہن‘(1936) ، ’جاگیردار‘ (1937) اور ’ایک ہی راستہ‘ (1939)  بنائیں۔ اس زمانے کی ان کی اہم ترین فلم ’عورت‘ ہے۔
سال 1940 میں ریلیز ہوئی یہ فلم ایک کسان کی اپنی زمین سے محبت کا نغمہ ہے۔ اس فلم میں اداکارہ سردار اختر نے مرکزی کردار ادا کیا جن سے ازاں بعد محبوب خان نے شادی کر لی تھی۔

محبوب خان اگرچہ کمیونسٹ نظریات کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے مگر وہ مذہب پر بھی گہرا اعتقاد رکھتے تھے (فائل فوٹو: فلم ہیریٹیج آرکائیوز)

سردار اختر کا ذکر آیا تو یہ بتاتے چلیں کہ اُن کی بہن کی شادی لیجنڈ ہدایت کار عبدالرشید کاردار (اے آر کاردار) سے ہوئی تھی۔ یوں محبوب خان اور اے آر کاردار ایک دوسرے کے ہم زلف تھے اور ان دونوں میں گہری دوستی بھی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ تقسیم کے ہنگام میں محبوب خان اور اے آر کاردار پاکستان منتقل ہو گئے تھے اور حکومتِ پاکستان نے محبوب خان کو لاہور میں سٹوڈیو الاٹ کرنے کی پیشکش بھی کی تھی مگر وہ دونوں خاموشی سے انڈیا واپس چلے گئے۔ ان کے اس فیصلے کی وجہ کبھی معلوم نہیں ہو سکی۔
ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ’دی پرنٹ‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ‘محبوب خان نے سال1942  میں اپنی فلمی کمپنی محبوب پروڈکشنز کی بنیاد رکھی  جس کے لوگو میں ہتھوڑے اور درانتی کی علامات تھیں جو بہت معنی خیز تھیں، کیوں کہ اُن کی فلمیں جیسے کہ ’روٹی‘ (1942)، معاشرے میں ’امیر‘ اور ’غریب‘ یعنی ’مراعات یافتہ‘ اور ’محروم‘ طبقات کے درمیان عدم مساوات پر مرکوز ہوتی تھیں۔‘
یہ کمیونسٹ تحریک کا نشان تھا اور جب محبوب پروڈکشنز کی فلم شروع ہوتی تو اس سے قبل یہ لوگو دکھایا جاتا جس کے بعد آغا حشر کاشمیری کا رفیق غزنوی کی آواز میں یہ شعر نشر ہوتا:
مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا  ہے
محبوب خان اگرچہ کمیونسٹ نظریات کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے مگر وہ مذہب پر بھی گہرا اعتقاد رکھتے تھے۔ وہ اپنی ساری زندگی پانچ وقت کے نمازی رہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے مذہب کو اپنی ذاتی اور سیاسی زندگی سے دور رکھا۔

جو لوگ ’مدر انڈیا‘ کو محبوب خان کا واحد تعارف سمجھتے ہیں، اُنہیں چاہیے کہ وہ ’انداز‘، ’آن‘ اور ’امر‘ جیسی فلمیں ضرور دیکھیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

دوبارہ محبوب خان کی یادگار فلم ’انداز‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ وہ واحد فلم ہے جس میں دلیپ کمار اور راج کپور ایک ساتھ بڑے پردے پر نظر آئے۔ یہ باکس آفس پر اس برس کی کامیاب ترین فلم رہی جس کا ریکارڈ اسی برس ریلیز ہونے والی راج کپور کی فلم ’برسات‘ نے توڑا۔
محبوب خان کی سال 1954 میں ریلیز ہوئی فلم ’امر‘ باکس آفس پر غالباً اس وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکی کیوں کہ اس کی کہانی غیرروایتی تھی جیسے کہ ایک شخص ایک عورت کو اپنے پاس پناہ دیتا ہے اور پھر اسی کا ریپ کر دیتا ہے۔
فلم میں دلیپ کمار نے ایک جاندار لیکن منفی کردار ادا کیا، جسے نقادوں نے سراہا، مگر عام فلم بین اُن کو ایک ’منفی ہیرو‘کے روپ میں قبول نہیں کر سکے۔ کہا جاتا ہے کہ محبوب خان اس فلم کو اپنی سب سے اہم تخلیق مانتے تھے۔
اس سال ہی محبوب خان نے بمبئی میں تاریخی محبوب سٹوڈیو قائم کیا۔ ’مدر انڈیا‘ اسی سٹوڈیو میں شوٹ ہوئی تھی۔ چیتن آنند، گرو دت اور دیو آنند سمیت کئی نامور ہدایت کاروں نے اپنی فلمیں اس سٹوڈیو میں بنائیں بلکہ دیو آنند کا تو دفتر بھی کافی عرصے تک محبوب سٹوڈیو میں ہی رہا۔
یہ سال 1943 میں ریلیز ہوئی فلم ’تقدیر‘ تھی جس سے اداکارہ نرگس نے بطور ہیروئن اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی محبوب خان ہی تھے۔
اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ لکھتا ہے کہ ’محبوب خان اور نرگس کے درمیان استاد اور شاگرد کا رشتہ تھا۔ عظیم اداکارہ نرگس نے اپنے کیریئر کی شروعات بطور چائلڈ آرٹسٹ کی تھیں۔ وہ جب نوجوانی کی عمر کو پہنچیں تو محبوب خان ہی وہ شخص تھے جنہوں نے سال 1943 میں ریلیز ہوئی فلم ’تقدیر‘ میں انہیں بطور ہیروئن پہلا بڑا موقع دیا۔‘
’محبوب خان ’انداز‘ کے بعد انہیں دوبارہ اپنی فلم ’آن‘ (1952)  میں کاسٹ کرنا چاہتے تھے، مگر جب نرگس نے انکار کر دیا تو ان کی جگہ نئی آنے والی اداکارہ نادرا کو منتخب کیا گیا، جنہوں نے اسی فلم سے ڈیبیو کیا۔‘

محبوب خان نے سال 1943 میں ریلیز ہونے والی فلم ’تقدیر‘ میں نرگس کو بطور ہیروئن پہلا بڑا موقع دیا (فائل فوٹو: پینٹرسٹ)

اردو سے محبت کرنے والے ناظرین کو محبوب خان کی فلموں کی زبان کی فصاحت و بلاغت اور ادبی چاشنی نے بھی اپنی جانب متوجہ کیا اور کیوں نہ کرتی کہ یہ وہ دور تھا جب ہندی فلموں کی زبان درحقیقت اردو ہی ہوا کرتی تھی جس کی ایک مثال سال 1946 میں ریلیز ہونے والی فلم ’انمول گھڑی‘ بھی ہے۔
اس فلم میں محبوب خان نے تین معروف گلوکار اداکاروں نور جہاں، ثریا اور سریندر کے ساتھ کام کیا۔ اس فلم کا ہیرو پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتا ہے جسے اس کا امیر دوست بمبئی بلا لیتا ہے تاکہ وہ اس کی موسیقی کے سازوں کی دکان سنبھالے۔
یوں فلم کا پس منظر موسیقی پر مبنی ہے اور کہانی ایک لو ٹرائی اینگل ہے تو اس طرح یہ محبوب خان کا کلاسیکی انداز لیے ہوئے تھی۔
اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ لکھتا ہے کہ ’بالی وڈ کی تاریخ کو اگر اس کی موسیقی کے ذریعے بیان کیا جائے تو محبوب خان کی زندگی کے سفر کو بھی اُسی خوبی سے ان کی فلمی موسیقی کے ذریعے بیان کیا جا سکتا ہے۔
اُن کے عشق، عدل، اور سماجی بھلائی جیسے نظریات کی بہترین جھلک ان کے فلمی گیتوں میں ملتی ہے۔‘
’انہوں نے غلام حیدر اور انیل بسواس جیسے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا، لیکن ان کی فلمی کامیابی میں اصل جادو نوشاد کا تھا، جن کے سُروں نے محبوب خان کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیا۔ انہیں شکیل بدایونی اور مجروح سلطان پوری جیسے عظیم شعرا کی خدمات بھی حاصل رہیں، جن کے اشعار نے فلموں کے مرکزی پیغام کو عوامی لہجے میں یوں ڈھالا کہ ہر فلم بین اسے محسوس کر سکے۔‘

فلم ’انمول گھڑی‘ میں محبوب خان نے تین معروف گلوکار اداکاروں نور جہاں، ثریا اور سریندر کے ساتھ کام کیا (فائل فوٹو: فلم ہسٹری پکس، ایکس)

’ان گانوں میں نہ صرف جذبات تھے بلکہ فلسفہ بھی مگر اسے ایسے انداز میں پیش کیا گیا کہ وہ دل سے ہوتے ہوئے ذہن میں اتر گیا۔‘
محبوب خان نے اگرچہ 20 سے زیادہ فلموں کی ہدایت کاری کی مگر یہ فلم ’مدر انڈیا‘ تھی جو ان کی ذات کا اہم ترین حوالہ بن گئی جیسا کہ دی پرنٹ لکھتا ہے کہ ’محبوب خان کو ہمیشہ ’مدر انڈیا‘ کے ہدایت کار کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔‘
یہ فلم کئی حوالوں سے یادگار ہے جیسا کہ نرگس اور سنیل دت کی مشہور پریم کہانی اسی فلم کے سیٹ پر شروع ہوئی جب سنیل دت نے ایک خطرناک آگ سے اپنی ساتھی اداکارہ کو بچایا اور پھر ان کی تیمارداری بھی کی۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ فلم میں دونوں نے ماں بیٹے کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں ماں رادھا (نرگس) کو اپنے بیٹے برجو (سنیل دت)، جو گاؤں کے لیے عذاب بن چکا ہوتا ہے، کو مارنا پڑتا ہے۔
فلم سے قطع نظر سنیل دت اپنی حقیقی زندگی میں ایک شائستہ اور باوقار انسان تھے۔ ’مدر انڈیا‘ کی ریلیز کے ایک سال بعد نرگس اور سنیل دت نے شادی کر لی۔ سال 1959 میں سنجے دت پیدا ہوئے۔

’مدر انڈیا‘ کی ریلیز کے ایک سال بعد نرگس اور سنیل دت نے شادی کر لی تھی (فائل فوٹو: فلم ہسٹری پِکس)

 یہ فلم دراصل ’عورت‘ کا ری میک تھی۔ یہ بالی وڈ کی پہلی فلم تھی جو آسکر ایوارڈ کی غیرملکی زبانوں کی بہترین فلم کی کیٹیگری میں نامزد ہوئی جب کہ یہ باکس آفس پر بھی زبردست کامیاب رہی۔ یہ بالی وڈ کی چند بہترین فلموں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔
امریکا میں اکیڈمی ایوارڈز کی نامزدگی کے علاوہ جہاں مبینہ طور پر یہ صرف ایک ووٹ سے ہار گئی، ’مدر انڈیا‘نے پانچ فلم فیئر ایوارڈز اور دو نیشنل ایوارڈز بھی حاصل کیے۔
معروف فلمی نقاد راجیو مسند نے ایک بار کہا تھا کہ ’مدر انڈیا نہ صرف انڈیا کو عالمی نقشے پر لے آئی بلکہ اس نے آنے والی کئی دہائیوں تک ہندی سینما کی شناخت بھی متعین کر دی۔‘
ازاں بعد محبوب خان نے ’سن آف انڈیا‘ بنائی مگر یہ فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام رہی جو ’مدر انڈیا‘ کے جادو کو دوبارہ تخلیق کرنے کی ایک ناکام کوشش تھی جس کے باعث محبوب خان قرضوں کے بوجھ تلے دب گئے۔
اس فلم کی ریلیز کے دو برس بعد 28 مئی 1964 کو یہ عظیم ہدایت کار چل بسا۔ اُس وقت ان کی عمر صرف 56 برس تھی۔
اُن کی موت سے ایک روز قبل ہی انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے وفات پائی تھی۔

فلم ’سن آف انڈیا‘ کی ریلیز کے دو برس بعد 28 مئی 1964 کو عظیم ہدایت کار محبوب خان چل بسے تھے (فائل فوٹو: سنیما پوسٹرز، فیس بک)

نیویارک ٹائمز نے یہ لکھا تھا کہ ’محبوب خان کو 27 مئی کو اس وقت دل کا دورہ پڑا جب انہوں نے اُس وقت کے وزیرِاعظم جواہر لال نہرو کی وفات کی خبر سنی۔‘
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ محبوب خان کے انڈیا رُک جانے کی وجہ نہرو ہی تھے جن کے لیے وہ بہت زیادہ عقیدت کے جذبات رکھتے تھے۔
محبوب خان نے اپنی مختصر زندگی اور اس سے بھی مختصر تخلیقی کیریئر کے دوران جنونی جذبے کے ساتھ کام کیا اور یہ کوشش کی کہ مقبول تفریح کو سوشلسٹ نظریات کے ساتھ جوڑا جائے جو ان کی فلموں میں نمایاں ہیں۔ انہوں نے اپنی فلموں میں بیک وقت حقیقت پسندانہ اور تفریح سے بھرپور، دیہی اور شہری ماحول کا امتزاج پیدا کرنے کی کوشش کی جس کے باعث ان کے سنیما نے فلم بینوں پر گہری چھاپ چھوڑی اور غالباً اسی وجہ سے محبوب خان کو ہدایت کارِ اعظم کا خطاب ملا۔

 

شیئر: