سعودی وزیر ماحولیات، آب اور زراعت عبدالرحمن الفضلی نے کہا ہے کہ’ ماحولیاتی معاملات پر مملکت کے کاربند رہنے سے پورے خطے میں گرین انیشی ایٹیو کو آگے بڑھانے میں مدد مل رہی ہے۔‘
قاہرہ میں ’سینٹر فار انوائرنمنٹ اینڈ ڈیویلپمنٹ فار دا عرب ریجن اینڈ یورپ‘ کے اٹھارویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ ماحولیات نے خطۂ عرب میں بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مومینٹم کی اہمیت پر زور دیا۔
مزید پڑھیں
-
سعودی عرب میں پہلا ’گرین انیشیٹو ڈے‘ منایا گیاNode ID: 847411
انھوں نے کہا’ اس عمل میں تیزی کی ایک وجہ سعودی عرب کا کردار قائدانہ ہے جس سے اہم اقدامات، جن میں مشرقِ وسطی کا سبز انیشی ایٹیو شامل ہے، آگے بڑھ رہے ہیں۔‘
’اس کا مقصد خطے کے ممالک میں رابطوں کو بڑھانا ہے تاکہ زمین میں ہونے والی خرابیوں کا مقابلہ کیا جا سکے، سبز مقامات کا تحفظ، خوارک کا بچاؤ اور خود کو موسمی حالات میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالا جا سکے۔‘
عبدالرحمن الفضلی نے’سینٹر فار انوائرنمنٹ اینڈ ڈیویلپمنٹ فار دا عرب ریجن اینڈ یورپ‘ کی ان کوششوں کو سراہا جو عرب اور یورپی خطوں میں تعاون کو مضبوط بنانے اور ماحولیاتی اور ترقی کی مہارتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
قاہرہ میں ہونے والے اجلاس کا محور اس سینٹر کے دائرۂ عمل کو بڑھانا اور کارکردگی کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔
کانفرنس میں سینٹر کے مقاصد کو ازسرِ نو مرتب کرنے کی ضرورت کو بھی نمایاں کیا گیا تاکہ موجودہ اور مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔

کانفرنس کے مندوبین نے سینٹر کے سٹریٹیجک منصوبوں پر بھی نظرِ ثانی کی اور اس کی ادارہ جاتی اور پائیدار پروگراموں کے لیے مالی صلاحیت کا بھی جائزہ لیا۔
سعودی وزیر نے خطۂ عرب کی، عالمی ماحولیاتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کا خاص طور پر ذکر کیا جن کے تحت مصر نے اقوامِ متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ستائیسویں کانفرنس جبکہ متحدہ عرب امارات نے 2023 میں کوپ 28 کی میزبانی کی تھی۔
گزشتہ برس سعودی عرب نے کوپ 16 کی میزبانی کی تھی جس میں اقوامِ متحدہ کے کنونشن کے تحت زمینوں کے بنجر و ویران ہونے کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاض میں عالمی آبی تنظیم کے قیام کا اعلان کیا تھا جس سے خطے کے ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کا اظہار ہوتا ہے۔
سعودی وزیرِ نے اپنے خطاب میں اس بات کی توثیق کی کہ سعودی عرب، خطے میں اور عالمی سطح پر بھی، دیگر شیئرہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا تاکہ ماحولیاتی چیلنجز کا مقابلہ ہو سکے اور ایک پائیدار مستقبل کو فروغ دیا جا سکے۔