’بینک میں نے ہی لوٹے مگر سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والا شخص میں نہیں۔‘
یہ بیان سن کر جہاں چند پولیس اہلکاروں کی ہنسی چھوٹی وہیں ایک دو کا ہاتھ غیرارادی طور پر اس ڈنڈے کی طرف چلا گیا جو وردی میں ایک طرف لگا ہوتا ہے۔
پھر کیا ہوا سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ واقعہ ہے کہاں کا اور وہ عجیب ڈاکو تھا کون، جس کی واردات نے علم نفسیات کو ایک نئے پہلو اور اصطلاح سے روشناس کرایا۔
وہ پانچ جنوری 1995 کی عام سی دوپہر تھی جب ایک شخص ہاتھ میں پستول لیے امریکی شہر پٹس برگ کے سوئس ویل بینک میں گھس گیا، پھر وہی ہوا جو ایسے موقعے پر ہوتا ہے، سب گھبرا گئے کیشیئر نے کیش تھیلے میں ڈال کر حوالے کر دیا اور وہ آسانی سے فرار ہو گیا۔
مشہور برطانوی ویب سائٹ بریٹینکا اور ہسٹری فلکس پر دی گئی تفصیلات کے مطابق واردات کے بعد لوگ حیران تھے کیونکہ اس شخص نے نہ چہرہ چھپایا تھا اور نہ ہی سکیورٹی کیمروں سے بچنے کی کوشش کی بلکہ خود ان کی طرف دیکھتا رہا۔
مزید پڑھیں
-
لبنان میں اپنی رقم نکلوانے کے لیے ایک دن میں پانچ ’بینک ڈکیتیاں‘Node ID: 701496
ابھی پولیس وہاں پہنچی ہی تھی کہ وہی شخص ایک اور یعنی میلن بینک میں گھس گیا اور وہی کچھ کیا جو پہلے بینک میں کیا تھا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج نکالنے میں پولیس کو زیادہ وقت نہیں لگا اور اگلے روز ہی اہلکار اس کے دروازے پر پہنچ گئے۔

اس کی شناخت مک آرتھر ویلر کے نام سے ہوئی، اس نے لوٹی ہوئی رقم پولیس کے حوالے کر دی مگر سب نے محسوس کیا کہ وہ پریشان نہیں بلکہ مطمئن لگ رہا تھا۔
چونکہ اس نے جلد ہی سب کچھ مان لیا اس لیے پولیس کو بھی زیادہ تردد نہیں کرنا پڑا اور عدالت میں پیش کیا گیا تو وہاں بھی اس نے یہی کہا کہ ’بینک میں نے ہی لوٹے ہیں مگر کیمرے میں نظر آنے والا شخص کوئی اور ہے۔‘
بہرحال ایک دو پیشیوں کے بعد اس کو 20 برس کی سزا سناتے ہوئے جیل بھیج دیا گیا۔
جیل میں وہ دیگر قیدیوں سے بات چیت میں بھی فوٹیج والی بات پر مصر رہا۔
میڈیا پر یہ بات رپورٹ ہوئی جبکہ جیل سے چھوٹنے والے قیدی بھی باہر جا کر یہ عجیب قصہ لوگوں کو سناتے رہے جو کورنیل یونیورسٹی سے وابستہ نفسیات کے پروفیسر ڈیوڈ ڈننگ کے کانوں تک بھی پہنچا جس پر ان میں تجسس پیدا ہوا کہ جب اس نے سب کچھ مان لیا ہے، سزا سنا دی گئی ہے تو پھر یہ فوٹیج والی بات ماننے سے انکار کی کیا وجہ ہے؟

اور اسی سوال نے ان کو جیل کی راہ دکھائی اور وہ تھوڑی دیر بعد اپنے ایک سٹوڈنٹ جسٹن کروگر کے ہمراہ اس شخص کے سامنے بیٹھے تھے۔
مک آرتھر نے ان کی طرف دیکھتے ایک بار پھر وہی موقف دوہرایا کہ ’ڈاکہ میں نے مارا مگر تصویر کسی اور شخص کی ہے۔‘ جہاندیدہ نفسیات دان نے محسوس کیا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا۔
ملاقات کا وقت ختم ہونے پر انہوں نے کچھ پولیس اہلکاروں کو قیدی کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کی مگر کوئی نہیں سمجھا اور انہوں نے چند روز بعد پھر سے ملاقات کا ارادہ باندھا۔
دوسری ملاقات میں بھی سلاخوں کی دوسری طرف موجود شخص کا اعتماد اور موقف وہی تھا جس پر ڈیوڈ ڈننگ نے پوچھا کہ یہ بات آپ کیسے ثابت کریں گے اور اس پر یقین کون کرے گا۔
اس کے جواب میں اس نے جو کچھ کہا اس نے نفسیات کا ایک نیا باب کھول دیا۔

اس کے مطابق ’میں نے کہیں پڑھا تھا کہ لیموں کا جوس پن کی سیاہی کو ان وزیبل کر دیتا ہے اور میں نے چہرے پر سیاسی لگانے کے بعد لیموں کا جوس لگایا جس سے چہرہ غائب ہو گیا۔‘
اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہ ’اس کے بعد میں نے آئینے میں خود کو دیکھا تو میرا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا جبکہ اپنے کیمرے سے تصویریں بھی کھینچیں جن میں باقی جسم نظر آ رہا تھا مگر چہرہ نہیں۔‘
ڈیوڈ ڈننگ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا ممکن نہیں مگر وہ نہ مانا، جس کا جواب ان کے اپنے ذہن میں یہی آیا کہ اس وقت کمرے میں مناسب روشنی نہیں ہو گی، اسی لیے ایسا ہوا ہو گا۔ بہرحال دو تین اور ملاقاتوں کچھ تحقیقات کے بعد استاد شاگرد کے ہاتھ ایک نئی تھیوری آ گئی۔
انہوں نے اس کے لیے تحقیق اور سرویز بھی کیے انہوں نے نفسیات کے طلبہ سے گرائمر، دلیل اور لطیفوں کے حوالے سے سوالات پوچھے اور اپنے سکور کے بارے میں اندازہ لگانے اور دوسرے امیدواروں کے ساتھ موازنے کا بھی کا کہا گیا۔
ان میں سے دو طلبہ نے اچھے جواب نہیں دیے تھے، انہوں نے مبالغے سے کام لیتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے سب سے اچھے جواب دیے۔
ڈننگ کو اس کی امید تھی مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ معاملہ اس قدر شدید بھی ہو سکتا ہے۔

سب سے ناقص جواب دینے والا ایک شخص اس بات پر مصر رہا کہ ان کے جواب دو تہائی طلبہ سے بہتر ہیں۔
جن لوگوں کی گرائمر پر گرفت تھی، وہ لطیفوں سے متعلق سوالات کے بھی اچھے جواب دینے کا دعویٰ کرتے رہے۔
مزاحیہ سوالات میں بہترین کے تعین کے لیے کامیڈینز کی خدمات لی گئیں اور یوں ایک لمبی تحقیق کے بعد ایک نیا ایفیکٹ سامنے آیا جس کو تحقیق کاروں کے ناموں کے ٹکڑوں کی مناسب سے ’ڈننگ کروگر‘ کا نام دیا گیا۔
ڈیوڈ ڈننگ کا کہنا ہے کہ مک آرتھر جھوٹ نہیں بول رہا تھا بلکہ اس کو اس بات پر اتنا پختہ یقین ہو گیا تھا کہ اسے ویسا ہی لگنا شروع ہو گیا تھا۔
سادہ الفاظ میں ڈننگ کروگر ایفیکٹ یا سینڈروم کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے کہ کوئی کم علم رکھنے والا شخص اپنی صلاحیت کے بارے میں ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی کا شکار ہو جائے تو وہ ایسی کیفیت میں جا سکتا ہے کیونکہ اس بات کو سمجھنے کے لیے جس ذہنی استعداد کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کے پاس ہوتی ہی نہیں۔
اس پر یونیورسٹی سے باہر بھی تجربات کیے گئے اور یوں یہ نفسیاتی پہلو مزید پختہ ہوتا چلا گیا۔
اسی طرح کھلاڑیوں، مزدوروں اور دیگر لوگوں سے سوال و جواب پر سرویز کیے گئے۔
