Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دا آرٹس ٹاور‘ جس نے ریاض کی سپورٹس بولیوارڈ کو نیا رنگ اور خوبصورتی دی

جیسے ہی آپ سعودی دارالحکومت ریاض کی نئی جاذبِ نظر سپورٹس بولیوارڈ کی طرف پیدل چلنا شروع کرتے ہیں، آپ کی آنکھ اس نئے لینڈ مارک کو دیکھے بغیر نہیں رہ سکتی۔
اور یہ لینڈ مارک وہ مینار ہے جو پرنس محمد بن سلمان بن عبدالعزیر روڈ اور پرنس ترکی بن عبدالعزیز الاول روڈ کے چوراہے پر اپنے دلنواز رنگوں اور مخصوص بناوٹ کی وجہ سے نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اس خوبصورت مینار کا نام ’دا آرٹس ٹاور‘ ہے اور اس کے پیچھے جو ذہن کارفرما ہے وہ معروف سعودی فنکار عبدالناصر غارم کا ہے جو تعمیراتی منظر نامے میں اپنے کیریئر کی ابتدا میں ہی ’صراط‘ اور ’روٹ ٹُو مکہ‘ جیسے کاموں سے اپنا مقام بنا چکے ہیں۔
عبدالناصر غارم نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’یہ ٹاور اس بڑی تبدیلی کا گواہ ہے جو یہاں وقوع پذیر ہے۔ یہ ثقافتی ڈھانچے کے لیے سرمایہ کاری کی علامت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مینار، موجودہ تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ یہ بجائے خود توانائی کی ایک علامت کے تخلیقی اظہار کا منارۂ نُور ہے۔
موجودہ شکل میں یہ ٹاور، ماضی میں 83 اعشاریہ پانچ میٹر تک بلند بجلی کے بے شمار ٹاورز میں سے ایک تھا جسے سپورٹس بولیوارڈ کے منصوبے کی وجہ سے اس مقام سے ہٹایا جانا تھا۔

یہ رنگ محض ایک جیسے نظر نہیں آتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

میں نے پوچھا کیا مجھے ایک ٹاور مل سکتا ہے؟‘ غارم نے بتایا کہ ان کا نام اس بولیواڈ کو مزید خوبصورت بنانے کے منصوبے کے سلسلے میں پہلے ہی ایک تجویز کنندہ کے طور پر سامنے آ چکا تھا اور وہ موجودہ ڈھانچے کو اس کام کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔
مصنف اور کیوریٹر نیتو تھامسن نے ایک بیان میں کہا کہ ’توانائی (بجلی) کی علامت کو کام میں لا کر اور اسے فن کے اظہار کا منارۂ نور بنا کر غارم نے، سعودی عرب کی ترقی کے سفر میں ثقافت کے بدلتے ہوئے کردار اور فن کو اجاگرکیا ہے۔
یہ ٹاور، ثقافتی منظرنامے کی نگہداشت پر مملکت کے کاربند رہنے اور فنون و تخلیق کو ویسی ہی الگ نہ ہو سکنے والی شناخت دینے کا زندہ ثبوت ہے جیسے ماضی میں توانائی اور تیل ہوا کرتے تھے۔

عبدالناصر غارم کا کہنا ہے ’یہ ٹاور یہاں ہونے والی بڑی تبدیلی کا گواہ ہے (فوٹو عرب نیوز)

ٹاور میں کل 691 رنگدار پینل ہیں جو اس کے سامنے کے حصے کو روشنیوں سے تاباں کر دیتے ہیں۔ اس میں سعودی فنِ تعمیر کے ان عناصر اور نمونوں، خاص طور پر مثلثی اشکال کو بھی استعمال میں لایا گیا ہے، جنھیں ہم پرانے گھروں کو دیکھ کر پہچان سکتے ہیں۔
اس ٹاور کے لیے جو ٹکڑے کام میں لائے گئے ہیں وہ مملکت کے عظیم اسلوب کے بیان سے جڑے ہوئے ہیں جن میں معاشی تنوع، ثقافتی تغیّر اور سماجی تبدیلی شامل ہیں۔ ’ان پینلوں کے رنگ ہماری تاریخ اور ہماری میراث کے درمیان ربط اور شگفتہ مزاجی اور میزبانی کے تصورات ہیں۔ویسے بھی اگر مینار کو دیکھنا ہو تو آپ کو اوپر کی طرف تو دیکھنا ہی پڑے گا۔

یہ پینل سورج کی روشنی کو استعمال کرتے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

سعودی فنکار کہتے ہیں کہ سعودی عرب کا وژن 2030 ’آرٹس ٹاور‘ کی طرح نگاہ کو بلندی کی طرف اٹھنے پر مجبور کرتا ہے اور لوگوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ متوقع راستوں سے غیر متوقع راہگزاروں پر گامزن ہو جائیں اور مستقبل کو ہاتھوں ہاتھ لینے کے لیے تخلیقی قوت اور ذہنی صلاحیتوں کو بھرپور استعمال کریں۔
یہ پینل سورج کی روشنی کو استعمال کرتے ہیں اور دن کی چکا چوند انھیں شہر کی رات والی روشنیوں سے بالکل مختلف جہت دیتی ہے۔
رنگ محض ایک جیسے نظر نہیں آتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں اور دن بھر مختلف طریقوں سے روشن ہوتے ہیں۔ اس طرح فطرت، اس ساخت کے لیے انتہائی اہم عنصر کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ ’دا آرٹس ٹاور‘ ایسے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ لوگوں کی نمائندگی کرے اور انھیں ایک دوسرے سے جوڑ دے‘۔ 

 غارم کہتے ہیں ثقافت مملکت کی ترقی کے لیے کلیدی حثیثیت رکھتی ہے(فوٹو: ایکس اکاونٹ)

ریاض کی سپورٹس بولیواڈ، جسمانی مشاغل کو فروغ دیتی ہے تو یہ تخلیقی سنگِ میل (دا آرٹس ٹاور) ایک گہرے مقصد کو پورا کرتا ہے۔ ’اس کی وسعتِ مکانی فکری ہے جس کا مقصد انسانوں کے باہمی تعامل اور کمیونٹی کے تصور کو ابھارنا ہے اور خاص طور پر انھیں بتانا ہے کہ رُکیں، ملیں جلیں اور آنے والے وقت پر غور کریں۔
عبدالناصر غارم کہتے ہیں ’ثقافت ہماری مملکت کی ترقی کے لیے کلیدی حثیثیت رکھتی ہے۔ یہ بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی توانائی۔ ثقافت پر سرمایہ کاری کی جانی چاہیے چونکہ یہ ایک سرٹیفیکیٹ ہے کہ مملکت اپنے ثقافتی منظر کی دیکھ بھال سے نگاہوں کو اوجھل نہیں کرے گی۔

 

شیئر: