انڈیا کے مایہ ناز اداکار، فلم ساز اور ہدایتکار گرو دت کے بارے میں انڈیا کے لیجنڈ اور ’شہنشاہ جذبات‘ دلیپ کمار نے کہا تھا کہ ان کے دوست ’گرو دت اپنی شہرت کو نہ سنبھال سکے۔‘
انھیں زندگی میں اگر کسی فلم کے نہ کرنے ملال تھا تو وہ گرو دت کی فلم ’پیاسا‘ تھی جس نے انڈین سینما کا رخ بدل دیا اور جس نے گرو دت کو بطور اداکار اور ہدایتکار دائمی شہرت بخشی۔
سو سال قبل آج ہی کے دن یعنی نو جولائی سنہ 1925 کو گرو دت اس دنیا میں آئے تھے۔ لیکن اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ وسنت کمار شِو شنکر پاڈوکون کو آپ جانتے ہیں تو شاید آپ اپنی لاعلمی کا اظہار کریں گے لیکن جب کوئی گرودت کا نام لے تو آپ نہ صرف انہیں بلکہ ان کی فلموں کے نام بھی گنوا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کرشمہ کپور جن کی زندگی کسی ’بالی وڈ فلم سے کم نہیں‘Node ID: 891392
دراصل گرو دت، وسنت کمار شِو شنکر پاڈوکون کے نام سے کرناٹک کے ایک برہمن خاندان میں بنگلور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین ٹیچر تھے اور جب وہ بچپن میں کلکتے پہنچے تو ان پر بنگالی تہذیب و تمدن نے اس قدر اثر ڈالا کہ انہوں نے اپنا نام تک بنگالی رکھ لیا۔
انہوں نے شمالی ریاست اتراکھنڈ (اس وقت یونائٹیڈ پراونس ہوتا تھا) کے ایک ڈانسنگ اور کوریوگرافی سکول میں داخلہ لیا لیکن اسے ادھورا چھوڑ دیا اور ٹیلیفون آپریٹر کی نوکری کر لی۔ اُن کا دل اس میں بھی نہیں لگا اور وہ اپنے والدین کے پاس بمبئی (ممبئی) آ گئے۔
اس وقت بمبئی سے زیادہ فلموں کا مرکز پونے کا پربھات سٹوڈیو تھا جہاں ان کی ملاقات اداکار رحمان اور دیوآنند سے ہوئی جو ان کے تاحیات جگری دوست رہے۔ رحمان کو ’صاحب بی بی اور غلام‘، ’چودھویں کا چاند‘ سمیت کئی فلموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
دیو آنند اور گرو دت کی دوستی کی کہانی ایک شرٹ سے شروع ہوتی ہے جسے دیوآنند نے ڈرائی کلینر کو دیا تھا جہاں سے گرودت نے اسے اڑا لیا تھا کیونکہ اس دن اُن کے پاس کوئی صاف شرٹ پہننے کو نہیں تھی۔
دونوں کی ملاقات پربھات سٹوڈیو میں ہوئی جہاں دیوآنند نے اپنی شرٹ پہچان لی اور ان سے پوچھا کہ یہ شرٹ تو بہت اچھی ہے کہاں سے لی جس پر گرودت نے اپنے معصومانہ انداز میں کہا کہ ’کسی کو بتانا نہیں چرائی ہے۔‘
دیوآنند ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ دونوں سٹارز کے سٹرگل کے دن تھے اس لیے دونوں نے ایک دوسرے سے وعدے کیے، دیو آنند نے کہا کہ اگر انہیں موقع ملا تو وہ اپنی فلم کی ہدایتکاری گرو دت سے کروائیں گے جبکہ گرو دت نے کہا کہ انہیں موقع ملا تو وہ دیو آنند کو اپنی پہلی فلم میں بطور اداکار لیں گے۔
دیو آنند نے جب اپنی فلم کمپنی ’نوکیتن‘ شروع کی تو انہوں نے اپنا وعدہ نبھایا لیکن گرو دت اپنا وعدہ نہ نبھا سکے۔

بہرحال گرو دت دل پھینک قسم کے نوجوان تھے، جن کا پہلا چکر الموڑا کے ڈانسنگ سکول میں ہوا تھا جس کی وجہ سے انہیں وہاں سے نکلنا پڑا تھا۔ پھر ان کا چکر پربھات سٹوڈیو کے سی ای او بابو راؤ پائی کے یہاں کام کرنے والی اسسٹنٹ ڈانسر ودیہ سے ہو گیا۔ ودیہ کی منگنی ہو چکی تھی لیکن گرو دت ان کے ساتھ بھاگ گئے۔ جب ودیہ کے منگیتر نے پولیس میں شکایت کرنے کی دھمکی دی تو معاملہ کسی طرح رفع دفع کیا گیا۔
پھر ان کی ملاقات گلوکارہ گیتا رائے چودھری سے ہوتی ہے اور یہ معاشقہ شادی میں بدل جاتا ہے اور گیتا رائے چودھری شادی کے بعد گیتا دت بن جاتی ہیں۔
نسرین منی کبیر نے گرو دت پر اپنی کتاب ’گرودت: اے لائف ان سینما‘ میں ان کے بھائی آتما رام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’گرو دت اپنے ابتدائی زمانے میں بہت ملنسار اور دوست نواز تھے۔ وہ بہت خوش و خرم رہنے والے تھے۔ شاید ان کی فلموں کی کامیابی نے انہیں بہت زیادہ محدود کر دیا تھا اور وہ لوگوں سے دور ہو کر تنہا رہنے لگے۔‘
گرو دت کو اصل کامیابی فلم ’پیاسا‘ سے ملی لیکن اس سے قبل انہوں نے خودکشی کی ایک بار کوشش کی تھی۔ وقت کے ساتھ ان میں اداسی گھر کرنے لگی اور ان کی بہن للتا لجمی کے مطابق انہیں نیند نہیں آتی تھی جس کی وجہ سے وہ شراب نوشی اور نیند کی گولیوں کی لت میں مبتلا ہو گئے تھے۔
گرو دت کی فلموں میں اکثر سماج کا ظلم و ستم اور بیگانگی، ذاتی مایوسی، اور فنکارانہ اظہار کے لیے جدوجہد کے موضوعات ملتے ہیں جو کہ ان کی اپنی زندگی کے تجربات کی عکاسی کرتے ہیں۔
پیاسا سے قبل ان کی فلم ’آر پار‘ اور مدھوبالا کے ساتھ ’مسٹر اینڈ مسز 55‘ کامیاب ہو چکی تھی۔ پیاسا کے بعد انھوں نے فلمیں بنائیں لیکن ان کی ہدایت کاری نہیں کی۔ ان کی بعد کی فلمیں جیسے ’صاحب بی بی اور غلام‘ یا ’کاغذ کے پھول‘ زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں لیکن ان کی یہ فلمیں ’فلم انسٹیٹیوٹ‘ کے نصاب میں شامل ہیں جہاں طلبہ کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اچھی فلمیں کیسے بنائی جاتی ہیں۔

وہ ناظرین کی توجہ حاصل کرنے اور ان کا موڈ بنانے اور بیانیے کو بڑھانے کے لیے روشنی اور سائے، کلوز اپ شاٹس اور کیمرہ کے زاویوں کے استعمال کے ماہر گردانے جاتے تھے۔
انہوں نے اپنی فلموں میں گیتوں کا بہت تخلیقی استعمال کیا ہے۔ کہانی کو آگے بڑھانے اور جذباتی اثر پیدا کرنے کے لیے ان کے فلموں کی مثال دی جاتی ہے۔ انہیں معروف کامیڈین جانی واکر کو تلاش کرنے کے لیے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
ان کی فلموں کو اکثر ان کی اپنی ذاتی زندگی کے عناصر کے ساتھ گہری وابستگی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس میں ان کی بے خوابی، افسردگی، اور ان کی پریشان کن شادی کے ساتھ ان کی مسلسل جدوجہد شامل نظر آتی ہے۔
گرو دت نے اداکارہ وحیدہ رحمان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت انہوں نے ’پیاسا، صاحب بی بی اور غلام، کاغذ کے پھول اور چودھویں کا چاند‘ جیسی فلمیں بنائیں۔ اس کے علاوہ ’کالا بازار‘ میں بھی ان کا بطور ہدایتکار اور اداکارہ ساتھ تھا جبکہ ’12 او کلاک‘ میں ان کی جوڑی ایک بار پھر نظر آئی۔
کہا جاتا ہے کہ وحیدہ رحمان سے ان کی بڑھتی قربت نے گیتا دت سے ان کی شادی کو متاثر کیا اور دونوں علیحدہ رہنے لگے۔ لیکن کبھی بھی وحیدہ رحمان یا گرو دت نے اپنی محبت کا برملا اظہار نہیں کیا۔
ان کی زندگی کو ’پیاسا‘ کے ان مصرعوں کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے:
یہ دنیا جہاں آدمی کچھ نہیں ہے،
وفا کچھ نہیں دوستی کچھ نہیں ہے
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
