Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عید کے روز بھی خوشیوں کو ترستے غریب ہموطن

لوگوں کے پاس ایک دوسرے کیلئے وقت نہیں، اب وہ انسیت باقی نہیں رہی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی
* * * عنبرین فیض احمد ۔ کراچی* * * *
آج جب زینب کام کرنے کیلئے ہمارے گھر آئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے اپنے بچوں کے لئے عید کی تیاریاں کرلی ہیں؟ اس نے مجھے جواب دیا کہ باجی ہم غریبوں کی بھی کوئی عید ہوتی ہے۔ عید تو امیروں کی ہوتی ہے۔ کوئی چیز بھی بازار لینے کیلئے جاتی ہوں تو قیمت اتنی ہوتی ہے کہ وہیں پر رکھ دیتی ہوں۔ ایسے میں آپ ہی بتائیں کہ کوئی غریب کیا عید منائے گا۔ہمارے ملک میں تویوں لگتا ہے کہ غریب اپنی زندگی کے دن پورے کرنے کیلئے دنیا میں آتا ہے ،جب اس کے دن پورے ہوجاتے ہیں تووہ دنیا سے چلا جاتا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ تم اداس نہ ہو، کوئی بات نہیں، فکر نہ کرو، ابھی عید میں چند روز باقی ہیں ۔ میں سوچ رہی تھی کہ واقعی ہمارے ملک میں ہر دوسرے شخص کا یہی حال ہوچکا ہے۔
عید تو سر پر آن پہنچی ہے لیکن چیزوں کی قیمت میں کوئی کمی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ مہنگائی ، بدامنی اور بیروزگاری نے ہمارے ملک کی اکثریت کو بہت متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی عدم مساوات نے غریب اور امیر میں وسیع خلیج پیدا کردی ہے۔ بلاشبہ جمہوریت تو عوام کیلئے ہی ہوتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت صرف صاحبان تک محدود ہے۔ عید سب کے لئے خوشیوں کا پیغام لاتی ہے لیکن افسوس! ہمارے غریب ہم وطن عید کے روز بھی خوشیوں کو ترستے ہیں ۔ وہ بے چارے عید کا انتظار کرتے ہیں، عید آتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ ان کی زندگیوں میں کوئی مسرت کی رمق محسوس نہیں ہوتی۔ وہ عید پر بھی خوشیوں کو ترستے ہیں۔ان کی زندگی میں جوش و خروش بھی کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہم لوگوں میں عید کی مسرتیں مصنوعی لگنے لگی ہیں۔ ہماری خوشیوں میں وہ خلوص اور اپنائیت نظر نہیں آتی جو پہلے کسی زمانے میں دکھائی دیتی تھی۔
عید کی حقیقی خوشی وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑتی جارہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عید کسی کیلئے خوشی بن کر آتی ہے تو کسی کیلئے حسرتوں کا پہاڑ بنا دی جاتی ہے۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ عید کی خوشیاں ملک میںغربت، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ ، بدامنی ، عدم تحفظ ، نا انصافی اور دیگر مسائل کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہیں۔ متعدد مسائل میں گھرے عوام کیلئے رمضان کریم کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ خوشی اور مسرت والاتہوار منانے کے لئے بھی وسائل میسر نہیں ۔ چنددہائیوں قبل چاند رات کو رشتہ داروں، ہمسایوں کے گھر عیدی لے کر جانے کا رواج تھا جواب دم توڑتا جارہا ہے۔ اس کے برعکس دیکھنے کویہ ملتا ہے کہ چاند رات کو جیسے ہی چاند نظر آنے کا اعلان ہوتاہے ،خواتین زیادہ تر بیوٹی پارلر کا رخ کرتی ہیں تاکہ ان کے بناؤ سنگھار میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
مرد حضرات بھی بازاروں کی طرف بھاگتے ہیں لہٰذا ماضی کی عید کی روایات اور خوشیاں تو اب ہمارے لئے قصہ پارینہ ہی بنتی جارہی ہیں۔ لوگوں کے پاس ایک دوسرے کیلئے وقت نہیں ۔ ہر شخص اپنی مصروفیات تلے اتنا دب چکا ہے کہ کوئی کسی سے گلہ تک نہیں کرسکتا کیونکہ ہر کسی کی اپنی مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں۔ کسی کے معاشی اور کچھ کے سماجی حالات بے انتہاء ابترہیں اور کچھ ہم نے خود ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ ہم میں وہ محبت و انسیت باقی نہیں رہی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عید کا اصل مقصد معاشرتی ہم آہنگی ، رواداری اور غریب و امیر کے فرق کومٹانا ہے لیکن ہم اس مقصد کو بھول جاتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے وطن عزیز کے حالات دگر گوں ہیں۔ اگر ہم چند سال پہلے کا جائزہ لیں توپتا چلے گا کہ لوگ ایک دوسرے کو عید کارڈ، عید گفٹ وغیرہ دیتے تھے جن میں ایک دوسرے کے لئے پیار اور محبت جھلکتی تھی۔ یہ جذبات آج کے دور میں نہیں پائے جاتے ۔
عید کارڈ کسی نہ کسی کے پاس آج بھی موجود ہونگے، جو اب بھی محبت کی خوشبو اپنے اندر سمو ئے ہوئے ہونگے۔ ہمیں اپنی خوشبوں میں غریب رشتہ داروں کو بھی شامل کرنا چاہئے۔ اس طرح یقینا ہماری خوشیاں بھی دوبالا ہوجائیں گی۔ ہمارے اس رویے سے باہمی فاصلے کم ہونگے۔ ترقی کے اس دور نے تو راستے سمیٹنے کے بجائے، مزید بڑھا دیئے ہیں۔ عجیب نفسانفسی کا عالم ہے کسی کو کسی کی خبر نہیں۔ لوگ مصنوعی خوشیوں کی تلاش میں حقیقی رشتہ داروں سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ آج سے چند سال قبل عید کے رنگ بھی بڑے نرالے ہوتے تھے۔ صبح صبح نماز عید کے بعد لوگوں کا رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کے گھروں کے چکر لگانا بھی ایک الگ ہی مزہ دیتا تھا۔ پھر بچوں کا اپنے بڑوں سے عیدی کیلئے ضد کرنا، تحائف کے تبادلے کا رواج، یہ سب کچھ اب شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے جس کی بڑی وجہ مہنگائی ہے لیکن سماجی رویوں نے معاشرے پر بہت گہرے اثرات ڈالے ہیں۔
پہلے دور میں ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ رمضان المبارک کے آخری روز سب مل کر چھت پر چڑھ کر مشترکہ طور پر چاند دیکھا کرتے تھے لیکن آج یہ سب کچھ معدوم ہوتا جارہا ہے۔ کوئی بھی چھت پر چڑھ کر چاند کی شکل دیکھنے کی تگ و دو نہیں کرتا۔اب تو سارے خاندان کی نگاہیں ٹی وی پر ہوتی ہیں۔ باقاعدہ اعلان ہونے کا انتظار رہتا ہے۔ جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا جارہا ہے، روایات و تہذیب میں بھی تبدیلیاں آتی جارہی ہیں۔معاملہ ہی عجیب ہے نفسا نفسی کا عالم ہے ۔سب اپنی دنیا میں مست ہیں، کسی کو کسی کی پروا نہیںٹ آج ہی اپنے غریب رشتہ داروں کے ساتھ کسی بھی قسم کی رنجش کو بھلاکر سب کو معاف کرکے نئے سرے سے تعلقات کی شروعات کریں ۔ یقیناپرانی رنجشوں کو بھلا نے کیلئے عید جیسا کوئی اور موقع نہیں ہو سکتا ۔

شیئر: