Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچے خوش تھے، انہوں نے اپنے خاندانوں کو ملا دیا تھا

عظمیٰ نے بہن کو فون کیا،وہ دوسری طرف سے شکوہ سن کر سخت شرمندہ تھی کہ غلطی اسی کی تھی
* * * *زاہدہ قمر۔ جدہ* * * *
امی امی! مجھے اسپرے کی بوتل چاہئے۔ جلد ی سے 25 ریال دیں۔ عاصم نے کچن میں کام کرتی عظمیٰ کو چونکا دیا۔ کیوں بھئی! تمہیں اسپرے کی بوتل کیوں لینی ہے؟ عظمیٰ حیران ہوئی۔ امی! آج عید ہے ناں، میں اس بوتل میں رنگ بھرکے اپنے دوستوں پر اسپرے کرونگا۔ بڑا مزا آئے گا۔ عاصم نے ماں کو وجہ بتائی۔ بیٹا ! وہ پچکاری ہوتی ہے اور اسے ہندو اپنے تہوار میں استعمال کرتے ہیں۔ اس میں مختلف رنگ بھر کر ایک دوسرے پر پھینکتے ہیں۔
ہم مسلمان ہیں، ہماری عید پربالکل مختلف ہوتی ہے،رنگ شنگ پھینکنے کی رسمیں ہمارے ہاں نہیں ہوتیں، مسلمانوں کی عید، اسلامی انداز سے منائی جاتی ہے ، اس نے عاصم کو سمجھایا۔ عاصم نے سوال کیا کہ امی! پھر ہم لوگ عید پر کیا کرتے ہیںجس سے ہماری عید کلرفل اور پریٹی ہوجاتی ہے؟ ماں نے جواب دیا کہ بیٹا! عید روزے داروں کا انعام ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملتا ہے۔ہم اس دن روزے رکھنے کے فرض کو پورا کرکے اللہ کریم کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اچھے اچھے کھانے بناتے ہیں۔ نئے اور اچھے کپڑے پہنتے ہیں۔ اپنے رشتہ داروں سے ملتے ہیں، ہر ایک کو عید کی خوشی میں شریک کرنے کیلئے اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو فطرہ ادا کرتے ہیں۔
اپنے ملنے جلنے والوں سے سارے جھگڑے معاف کرکے عید ملنے جاتے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں اور لڑائیوں کو دل سے نکال دیتے ہیں۔ایک دوسرے کو تحائف بھی دیتے ہیں کیونکہ ہمیں باور فرما دیا گیا ہے کہ تحفہ دینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے اس لئے ایک دوسرے کو تحائف دیا کرو۔ مگر امی! ہم لوگ تو کہیں بھی نہیں جاتے اور نہ ہی کوئی ہمارے گھر آتا ہے۔ عید کی نماز پڑھ کر ابو سو جاتے ہیں، آپ کھانا بنانے لگتی ہیں اور میں بھائی اور فاریہ کے ساتھ ٹی وی دیکھتا ہوں یا پھر گیم کھیلنے لگتا ہوں۔
ہمارا عید کادن تو بالکل روز جیسا ہی گزرجاتا ہے۔ میرے دوست کہتے ہیں کہ ان کی عید کا دن بڑا اچھا گزرتا ہے تو مجھے یقین نہیں آتا۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید وہ لوگوں پر کلرشلر ڈالتے ہونگے۔ میں ان سے اس لئے نہیں پوچھتا تھاکہ کہیںوہ میرا مذاق نہ اڑائیں۔ مجھے تو کچھ پتہ ہی نہیں۔ مگر امی! آپ نے جو باتیں بتائیں تو واقعی ہمارا تہوار سب سے اچھا ہے پھر آپ لوگ سب سے کیوں نہیں ملتے؟ بیٹا! رشتہ داروں سے ہمارا تھوڑا جھگڑا ہے اور ہمسائی سے ملنا میں بالکل پسند نہیں کرتی۔ یہی حال آپ کے ابو کا ہے تو ہم بھی کہیں نہیں جاتے اور دوسرے بھی ہمارے گھر نہیں آتے۔ میں ، آپ کے ا بو اور آپ تینوں بہن بھائی ،ہم گھر پر ہی انجوائے کرتے ہیں ۔ کیا آپ کو گھر میں رہنا پسند نہیں؟ عظمیٰ نے سوال کیا؟ امی! یہ بات نہیں ، مجھے گھر میں رہنا اچھا لگتا ہے مگر ہماری اسلامیات کی کتاب میں رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والوں کے متعلق لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والوں کو ناپسندفرماتا ہے اور قرآن پاک میں ہمیں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جو آپ سے تعلق توڑے آپ اس سے تعلق جوڑیں۔ پڑوسیوں کے بھی بہت حقوق ہیں۔
امی! آپ ان سے ملنا کیوں پسند نہیں کرتیں؟ امی ہمارے سب رشتہ دار دوسرے شہروں میں رہتے ہیں تو پھر ہمارے ہمسائے ہی ہمارے رشتہ داروں جیسے ہوئے ناں؟ برابر والی آنٹی تو بہت ہی اچھی ہیں۔ جب بھی ملتی ہیں بڑے پیار سے حا ل پوچھتی ہیں۔ عاصم نے اچھی خاصی تقریر کر ڈالی۔ ارے بھئی! مجھے پتہ ہے کہ ہمارے پڑوسی اچھے ہیں مگر میرے پاس بالکل ٹائم نہیں کہ میں دوستیاں رکھوں۔ عظمیٰ نے بے زاری سے کہا۔
امی! اگر ہم اپنے رشتہ داروں سے ملنے ریاض، دمام اور بریدہ جائیں گے تو وہ لوگ کتنے خوش ہونگے۔ پھر کبھی پاکستان بھی چلیں۔ وہاں بھی تو ہمارے رشتہ دار رہتے ہیں۔ وہ لوگ ہمیں دیکھ کر سب جھگڑے بھول جائیں گے۔ پلیز امی! چلیں ناں، سب کو فون کرکے عید مبارک کہتے ہیں۔ عاصم سے بڑا قاسم جو کہ بہت دیر سے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا برابر والے کمرے سے اٹھ کرآیا۔ دراصل یہ لوگ بہت عرصے سے پردیس میں مقیم تھے اور عظمیٰ اور اس کے شوہر نے بچوں کو باہر جانے اور زیادہ میل جول بڑھانے یا دوستیاں کرنے کی اجازت نہیں دی تھی مگر اب بچے بڑے ہورہے تھے اور وہ اسکول کی بڑی جماعتوں میں آگئے تھے، عاصم ساتویں جماعت، قاسم آٹھویں اور فاریہ پانچویں جماعت میں تھی۔
اب بچوں کے ذہن میں اپنے ہم جماعتوں کو دیکھ کر اور ا ن سے مل کر طرح طرح کے سوالات پیدا ہوتے تھے۔ ان کی جماعت کے غیر مسلم بچے اپنے تہوار بڑے ذوق و شوق سے مناتے تھے۔ بعد میں ایک دوسرے کو خوشی خوشی بتایا کرتے تھے۔ اسی لئے آج عید کا دن عاصم ہمیشہ کی طرح گزرتا دیکھ کر بول پڑا تھا۔ اب تو قاسم بھی اس کے ساتھ شریک گفتگو ہوگیا۔ کہنے لگا،امی پلیز! آپ فون کرکے تو دیکھیں، اگر کوئی اچھا رسپانس نہیں آئے گا تو پھر کبھی آپ سے نہیں کہیں گے۔ بیٹا! ہمارے رشتہ داروں نے کبھی ہماری خبر نہیں لی۔ نہ خیر خیریت پوچھی۔ نہ دکھ درد میں ہمارے کام آئے ،میں کیوں فون کروں؟ عظمیٰ کو غصہ آگیا۔ امی! آپ نے بھی تو ایسا ہی کیاہے۔
ہوسکتا ہے، ان کو ہماری ضرورت ہوتی ہو اور وہ آپ کے پوچھنے کا انتظار کررہے ہوں۔ آپ ایک دفعہ خود سے آگے بڑھیں ، ان شاء اللہ، آپ کو ثواب ہوگا اوراللہ تعالیٰ بھی خوش ہوگا۔ قاسم نے بڑوں کی طرح سمجھایا اور اپنے ابو کوسوتے سے جگاکر ان سے بھی اصرار کرنے لگا۔ پہلے تو دونوں ناراض ہوئے، آخر خون نے جوش مارا تو عظمیٰ نے فون اٹھا ہی لیا۔ اب وہ اپنی بہن کو فون کررہی تھی اور دوسری طرف سے شکوہ سن کر سخت شرمندہ تھی کہ غلطی اسی کی تھی۔ وہ خود ہی بدگمانی کا شکار ہوکر اتنے عرصے سے خوشیوں سے محروم رہی اور پھر چاچو سے بات کرکے تو دونوں میاں بیوی نادم ہوکر رو پڑے کہ بدگمانی جیسا گناہ کرکے اپنے اور اپنے بچوں کی خوشیوں کو کیسا برباد کر دیا تھا۔ بچے خوش تھے کہ آج انہوں نے اپنے خاندانوں کو ملا دیا تھا۔ عاصم نعرے لگا رہاتھا، آج عید ہے، ہماری عید ہے۔عظمیٰ نے اسے سمجھایا کہ نہیں بیٹے، ہمیں اغیار کی پیروی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں کہنا چاہئے کہ سب اختلافات بھول جاؤ۔ آج عید ہے۔ مل کر مسکراؤ، آج عید ہے۔ ابو نے کہا تو سب ہنس پڑے۔

شیئر: