آپ نے دوستی پر مبنی بہت سی بالی وڈ فلمیں دیکھی ہوں گی، جن میں ’دوستی‘، ’دوستانہ‘، ’دوست‘ وغیرہ تو ذرا پرانی فلمیں ہیں لیکن ’دل چاہتا ہے‘، ’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘، ’چھچھورے‘، ’بلو باربر‘ اور ’تھری ایڈیٹس‘ وغیرہ یکایک ذہن میں کوند جاتی ہیں۔
ان سب میں جو فلم سب سے مختلف اور آج تقریباً 25 سال بعد بھی سب سے تازہ اور سب سے معاصر نظر آتی ہے وہ ’دل چاہتا ہے‘۔
اس فلم کی کہانی معروف سکرپٹ رائٹر اور نغمہ نگار جاوید اختر کے بیٹے فرحان اختر کے سنہ 1996 میں نیویارک شہر میں چھ ہفتے کے قیام اور گوا کے سفر کے دوران کیے گئے ذاتی تجربات اور مشاہدات کا نتیجہ ہے۔
مزید پڑھیں
-
نامور اداکار نصیر الدین شاہ جو آرٹ اور کمرشل سینما کا سنگم بنےNode ID: 892443
یہ فلم تین دوستوں کی کہانی ہے جو کالج چھوڑنے کے بعد اپنی زندگی میں تبدیلی کا تجربہ کرتے ہیں۔
ابتدائی طور پر، فرحان نے کہانی کو آکاش اور شالینی کے درمیان ایک رومانوی کہانی کے طور پر تصور کیا، لیکن بعد میں انہوں نے دوستی اور ذاتی ترقی کے موضوعات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اسے تین دوستوں کی کہانی میں بدل دیا۔
آکاش اور شالینی کے کردار عامر خان اور پریتی زنٹا نے نبھائے ہیں۔
سنہ 1998 میں فرحان نے اپنی بہن زویا اختر کے ساتھ مل کر البم ’بریتھ لیس‘ کے لیے ایک میوزک ویڈیو کی ہدایت کاری کی اور اسی دوران انہوں نے فلم کا سکرین پلے لکھنا شروع کیا۔
فلم کا سکرین پلے شروع میں انگریزی میں لکھا گیا اور بعد میں اس کا ہندی میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ فلم فرحان اختر اور رتیش سدھوانی کی پہلی فلم تھی، جنہوں نے ایکسل انٹرٹینمنٹ کے بینر تلے اس فلم کو پروڈیوس کیا۔
فلم میں عامر خان، سیف علی خان، اکشے کھنہ، پریتی زنٹا، سونالی کلکرنی اور ڈمپل کپاڈیہ شامل ہیں۔
’دل چاہتا ہے‘ آج ہی کے دن 10 اگست 2001 کو ریلیز ہوئی اور اسے ناقدین اور شائقین دونوں نے خوب سراہا اور یہ ایک کلٹ فلم بن گئی۔
اس نے آنے والے دنوں میں بہت ساری فلموں کو متاثر کیا۔ اس نے بعد میں آنے والی فلموں کو عصری موضوعات کو تلاش کرنے، فارمولے والے بیانیہ سے الگ ہونے اور زیادہ جدید سنیما سٹائل کو اپنانے کے لیے متاثر کیا۔
اس میں ایسے ثقافتی رجحان کو پیش کیا گيا ہے جس میں روایت سے گریز ہے اور جس نے انڈین فلم انڈسٹری اور اس کے ناظرین کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

جب ’دل چاہتا ہے‘ ریلیز ہوئی اس وقت بالی وڈ نہ صرف بدلنا شروع ہوا تھا بلکہ ناظرین ایسی کہانیوں کی تلاش میں تھے جو ان کے حسب حال ہو اور حقیقت پسندانہ ہو۔ فلم نے عام کہانیوں سے ہٹ کر ایک نیا نقطہ نظر پیش کیا جس میں نئے ہزاریے کی دہائی کے اوائل میں شہری نوجوانوں کے لیے اپیل تھی۔
’دل چاہتا ہے‘ کے بطن میں تین مرکزی کردار آکاش، سمیر اور سِد ہیں۔ وہ ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جو اپنی مخصوص شخصیتوں اور متعلقہ چیلنجوں کی وجہ سے زندگی، رشتوں اور خود کی دریافت کی پیچیدگیوں کو عبور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ فلم شالنی (پریتی زنٹا)، پوجا (سونالی کلکرنی) اور تارا (ڈمپل کپاڈیہ) کے ساتھ ان کے رومانوی تعلقات کو بھی گہرائی سے بیان کرتی ہے۔
آکاش ملہوترا کا کردار کسی آزاد منش یا دی فری سپرٹ نوجوان کا ہے۔ اسے عامر عامر خان نے انتہائی دل پسند انداز میں ادا کیا ہے۔ آکاش نوجوانوں کے بے فکر جذبے کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ حوصلہ مند، باہمت، اور خطرہ مول لینے والا انسان ہے۔ اس کی شخصیت آزادی کی بھوکی ہے، بے وقوفیوں کی مظہر ہے، جسے بہت سے لوگ اپنی جوانی میں ہی پہچان سکتے ہیں۔
سمیر مولچندانی کا کردار سیف علی خان نے ادا کیا ہے۔ یہ پہلی فلم ہے جس میں سیف علی خان نے یہ بتایا کہ انہیں اداکاری آتی ہے۔ انہوں نے ایک ہوپ لیس رومانوی نوجوان کا کردار ادا کیا ہے۔ فون پر ان کی گرل فرینڈ سے بات انتہائی دلچسپ ہے۔

سیف علی خان نے دل پھینک عاشق کا کردار بہترین انداز میں ادا کیا ہے جو آسانی سے گہری محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
وہ محبت کی سادہ لوحی کو مجسم کر دیتے ہیں۔ سمیر کو گروپ کے ’جوکر‘ یا ’بیوقوف‘ کردار کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے لیکن وہ ایک ایسا دوست ہے جو آپ کے لیے ہمیشہ موجود رہتا ہے، وہ تینوں کے درمیان توازن رکھنے والی قوت ہے۔
سدھارتھ سنہا عرف سد کا کردار اکشے کھنہ نے ادا کیا ہے۔ یہ ایک ذمہ دار اور حقیقت پسند نوجوان کا کردار ہے۔
وہ ایک سمجھدار دوست ہے جو خاندانی ذمہ داریوں اور ذاتی اہداف کے درمیان توازن قائم کرنے کا انتظام کرتا ہے۔
فلم میں، سد نے ایک فنکار کا کردار ادا کیا ہے جو اپنے کینوس پر جذبات کو پینٹ کرتا ہے۔ وہ اپنی پینٹنگز کے ذریعے اپنے اندرونی کرب اور اپنے موضوعات دونوں کو پیش کرتا ہے۔
وہ ضرورت سے زیادہ جذبات رکھتا ہے، دوسروں کو سمجھتا ہے، اور زندگی کی خصوصیات کے بارے میں حیرت انگیز تجربہ رکھتا ہے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کے باوجود، سد کے پاس تنہائی کی ایک خاص فضا ہے۔
فلم میں دوستی کو جس طرح پیش کیا گیا ہے وہ اس کے دلکش عناصر میں سے ایک ہے۔ انہوں نے اپنی مزاحیہ گفتگو، مشترکہ مہم جوئی اور ایک دوسرے کے ساتھ ثابت قدمی کے ذریعے دوستی کے حقیقی روپ کا مظاہرہ کیا۔

انڈیا کے سیاحتی مقام گوا کا ان کا روڈ ٹرپ نوجوانوں کے جوش اور بے ساختہ کی نمائندگی کرتا ہے اور اسے فلموں میں دوستی کے پائیدار سفر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اس فلم میں ولن کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ یہ دوست ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں طاق ہیں۔
’دل چاہتا ہے‘ کی عکس بندی کرنے والے روی کے چندرن نے بتایا کہ یہ فلم آج بھی کیونکر اس قدر تازہ ہے حالانکہ اس فلم کی شوٹنگ کے پہلے دن ہی کیمرے نے دھوکہ دے دیا تھا۔
فلم کے مشہور گیت ’تنہائی‘ کو انہوں نے کس طرح تیار کیا؟ اس کے بارے میں انہوں نے بھاردواج رنجن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہم نے فلم شروع کی تو فرحان نئے نئے تھے اور میں جنوبی انڈیا سے تھا، اس لیے کوئی تال میل نہیں تھا۔ وہ لوگ ایک منصوبہ بندی سے کام کرتے تھے اور میں منصوبے کے تحت نہیں چلتا تھا۔ جب ہم نے عام خان کو ’تنہائی‘ کی ایک لوکیشن پر چلنے کے لیے کہا تو فرحان اختر کی بہن زویا نے کہا کہ یہ تو پروگرام میں نہیں تھا لیکن پھر عامر کپڑے تبدیل کر کے آئے۔ وہ شاٹ کے لیے تیار تھے۔ ہمارے ہوٹل کے برابر ایک سرنگ تھی ہم نے عامر سے کہا کہ وہ اس کے ستون سے جھک کر کھڑا ہو۔ ہر دن جب میں کچھ کر رہا ہوتا تو ساتھ میں اس گیت کے لیے تصاویر لیا کرتا۔‘
’میں اپنے باس کے گھر جا رہا تھا تو راستے میں مجھے ایک قبرستان نظر آیا۔ میں نے سوچا کہ اس سے محبت کی موت کے جذبے کو مزید حساسیت ملے گی۔ پورے گیت میں عامر فریم کے کنارے نظر آتے ہیں اور آخر میں وہ منظر سے تقریباً غائب ہو جاتے ہیں۔‘

اسی طرح انہوں نے سد کے جوش کو کیمرے میں قید کرنے کے لیے جو تصویر بنائی وہ سنگل شاٹ میں لی گئی تاریخی عکس بندی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب تارا یعنی ڈمپل کپاڈیہ سڈ یعنی اکشے کھنے سے کہتی ہیں کہ کیا وہ ان کی تصویر بنا سکتے ہیں تو وہ دھیرے سے باہر نکلتے ہیں اور پھر دوڑنے لگتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تارا کو ان کے جوش کا پتہ نہ چلے۔‘
’فرحان چاہتے تھے کہ اس جوش و جذبے کو کیمرے میں قید کیا جائے تو ہم نے اس وقت کے بہترین سٹیڈی کیم آپریٹر نتن راؤ سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ ان کے پیچھے پیچھے جائے اور جہاں سے وہ دوڑنا شروع کرتا ہے وہاں پر ایک آٹو تھا جس پر سوار ہو کر وہ ان کا پیچھا کریں اور اس طرح وہ پورا سین ایک ہی شاٹ میں فلمایا گیا۔‘
اس فلم کے بعد اکشے، عامر اور سیف کی کئی بہترین فلمیں آئیں لیکن شاید ’تھری ایڈیٹس‘ کے علاوہ کوئی بھی ’دل چاہتا ہے‘ کا مقابلہ نہیں کر سکی۔