پاکستان کے ٹیکس جمع کرنے کے ذمہ دار ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ٹیکس نادہندگان کو مسلسل نوٹس جاری کرتا رہتا ہے اور اس سلسلے میں مسلسل قانون سازی بھی کی جا رہی ہے۔ اور اب ایف بی آر کو گرفتاریوں تک کے اختیارات دینے کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔
لیکن دوسری جانب آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گذشتہ دو برس ممیں سپر ٹیکس کی مد میں قومی خزانے کو تقریباً 1679 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ 1026 ٹیکس دہندگان نے واجب الادا سپر ٹیکس ادا نہیں کیا، جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی کمزور نگرانی اور بروقت قانونی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ خطیر رقم خزانے میں جمع نہ ہو سکی۔
مزید پڑھیں
انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 4 سی کے تحت ٹیکس سال 2022 سے سپر ٹیکس ان تمام افراد اور کمپنیوں پر عائد ہوتا ہے جن کی آمدن 15 کروڑ روپے سے زیادہ ہو۔ اس کا مقصد ہائی انکم گروپس سے اضافی ریونیو حاصل کرنا تھا تاکہ بجٹ خسارہ کم کیا جا سکے۔ تاہم آڈٹ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ ایف بی آر نے نہ صرف بروقت کارروائی نہیں کی بلکہ زیرِالتوا کیسز کو بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچایا۔
اس حوالے سے ایف بی آر کا موقف ہے کہ وہ ان کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں مصروف ہے تاہم اب تک 48.01 ملین روپے کی وصولی ممکن ہو سکی ہے، جبکہ 1,942.77 ملین روپے کی ریکوری ابھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ 159,610.41 ملین روپے کے مقدمات قانونی کارروائی کے باوجود حتمی مراحل تک نہیں پہنچ سکے اور 6,334.69 ملین روپے کے مقدمات عدالتوں میں زیرِسماعت ہیں۔
ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی نے جولائی، اکتوبر، نومبر اور دسمبر 2024 کے علاوہ جنوری 2025 میں بھی اجلاس منعقد کیے جن میں متعلقہ حکام کو سختی سے ہدایت کی گئی کہ فوری طور پر واجب الادا رقم وصول کی جائے، قانونی کارروائیاں مکمل کی جائیں اور عدالتوں میں زیرسماعت کیسز کا فیصلہ جلد از جلد کروایا جائے۔
خیال رہے کہ تاجر برادری نے سپر ٹیکس کے نفاذ کو معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی کاروبار پر بجلی و گیس کے زیادہ نرخ، بلند شرح سود اور پالیسیوں کی غیریقینی صورتحال کے ذریعے دباؤ ڈال رکھا ہے۔ سپر ٹیکس کی صورت میں مزید بوجھ ڈالنے سے نہ صرف سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے بلکہ کاروباری ادارے بند ہونے کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔
ان کے مطابق جب کاروباری سرگرمیاں محدود ہو جائیں گی تو روزگار کے مواقع بھی کم ہوں گے اور عام آدمی براہ راست متاثر ہو گا۔
اجمل بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت کو بڑے کاروباری اداروں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کے بجائے ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہیے تاکہ نان فائلرز کو بھی دائرہ کار میں لایا جا سکے اور بوجھ صرف چند اداروں یا افراد پر نہ ڈالا جائے۔

معاشی ماہرین نے بھی سپر ٹیکس کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ ’سُپر ٹیکس کا بنیادی مقصد آمدنی کے بڑے ذرائع سے اضافی محصولات حاصل کر کے مالی دباؤ کم کرنا تھا، لیکن ایف بی آر کی کمزور نگرانی اور سیاسی دباؤ کے باعث یہ ہدف ناکام رہا۔‘
ان کے مطابق ’جب ادارے ٹیکس وصولی میں ناکام رہیں تو بوجھ بالآخر غریب اور متوسط طبقے پر بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں پڑتا ہے۔ سپر ٹیکس وقتی بنیادوں پر ریونیو تو فراہم کر سکتا تھا لیکن طویل مدت میں یہ سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اگر حکومت ٹیکس نیٹ کو وسیع کر لے اور نان فائلرز کو سسٹم میں شامل کرے تو ایسے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔‘
پاکستان میں آڈٹ کا عمل آئینی طور پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دفتر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 169 اور 170 کے تحت آڈیٹر جنرل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں، نیم سرکاری اداروں اور خودمختار محکموں کے مالی معاملات کا آڈٹ کرے۔ آڈٹ ٹیموں میں ماہر آڈیٹرز، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس اور محکماتی ماہرین شامل ہوتے ہیں جو متعلقہ ادارے کے مالی ریکارڈ، اکاؤنٹس اور قانونی تقاضوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ اس عمل میں نہ صرف واجبات اور ادائیگیوں کا حساب کیا جاتا ہے بلکہ ادارے کی کارکردگی، شفافیت اور قانونی مطابقت کو بھی جانچا جاتا ہے۔

رپورٹ کی تیاری کے بعد ان مشاہدات کو ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کیا جاتا ہے جہاں متعلقہ ادارے کے نمائندے وضاحت دیتے ہیں۔ آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹس بعدازاں پارلیمنٹ میں جمع کرائی جاتی ہیں تاکہ عوامی نمائندے ان پر بحث کریں اور اداروں کو جوابدہ بنایا جا سکے۔ جہاں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ان پر حتمی فیصلہ کرتی ہے۔ اس پورے عمل کا مقصد مالی بدانتظامی کو روکنا، کرپشن کو کم کرنا اور ٹیکس دہندگان کے پیسے کے درست اور شفاف استعمال کو یقینی بنانا ہے۔
آڈیٹر جنرل کی اس رپورٹ میں واضح سفارش کی گئی ہے کہ ایف بی آر کو فوری طور پر واجب الادا رقوم کی وصولی کے اقدامات تیز کرنے چاہییں، عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے اور ادارے کے اندر مانیٹرنگ کے نظام کو مضبوط بنانا چاہیے۔
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ اگر ایف بی آر اپنی ذمہ داریاں موثر طریقے سے نبھائے تو قومی خزانے میں اربوں روپے جمع ہو سکتے ہیں جو نہ صرف بجٹ خسارہ کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے بلکہ معیشت کے لیے ریلیف کا باعث بھی بنیں گے۔