Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فلسطینیوں کی نسل کشی‘، سینکڑوں اداکاروں اور ہدایت کاروں نے اسرائیلی فلمی اداروں کا بائیکاٹ کر دیا

اس عہد نامے پر دستخط کرنے والوں میں اولیویا کولمین، مارک رفیلو اور ٹلڈا سوئنٹن سمیت متعدد اداکار شامل ہیں۔ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق سینکڑوں اداکاروں، ہدایت کاروں اور فلمی صنعت سے وابستہ افراد نے ایک عہد نامے پر دستخط کیے ہیں جس میں انہوں نے ان اسرائیلی فلمی اداروں کے ساتھ کام نہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے جو ان کے مطابق ’فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی اور نسلی امتیاز میں ملوث ہیں۔‘
اس عہد نامے میں کہا گیا ہے کہ ’بطور فلم ساز، اداکار، فلمی صنعت کے کارکن اور ادارے، ہم اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ سینما کی طاقت لوگوں کی سوچ اور خیالات کو متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔‘
’اس بحرانی لمحے میں، جب ہماری کئی حکومتیں غزہ میں جاری قتل کی پشت پناہی کر رہی ہیں، ہمیں اپنی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اس ہولناکی میں کسی بھی قسم کی شراکت سے خود کو دور رکھیں۔‘
اس عہد نامے پر دستخط کرنے والوں میں اولیویا کولمین، مارک رفیلو، ٹلڈا سوئنٹن، خاویر بارڈیم، ایو ایڈیبری، رض احمد، جوش اوکونر، سنتھیا نِکسن، جولی کرسٹی، الانا گلیزر، ربیکا ہال، ایمی لو ووڈ اور ڈیبرا وِنگر شامل ہیں۔
ہدایت کاروں میں یورگوس لانتھیموس، ایوا ڈوورنے، آصف کپادیا، بوٹس رائلی اور جاشوا اوپن ہائمر بھی شامل ہیں، جن کے ساتھ اتوار کی شب تک 1200 سے زائد فلمی کارکنان دستخط کر چکے تھے۔
یہ بیان ’فلم ورکرز فار فلسطین‘ کے پلیٹ فارم سے جاری کیا گیا، جس میں دستخط کنندگان نے ان اداروں کے ساتھ کام نہ کرنے کا عزم کیا ہے جو مبینہ طور پر اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں، جن میں فلمی میلوں، براڈکاسٹرز اور پروڈکشن کمپنیوں کو شامل کیا گیا۔ بیان میں ان پر نسل کشی کو ’جواز فراہم کرنے یا پردہ پوشی‘ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ہم فلسطینی فلم سازوں کی پکار پر لبیک کہتے ہیں، جنہوں نے عالمی فلمی صنعت سے اپیل کی ہے کہ وہ خاموشی، نسل پرستی اور انسانیت سوز سلوک کو مسترد کریں، اور ہر ممکن کوشش کریں کہ ان کے خلاف جبر و ستم میں کسی طرح کی شراکت نہ ہو۔‘

 

شیئر: