آئرش ناول نگار سیلی رونی نے کہا ہے کہ وہ بی بی سی سے ملنے والی رائلٹی کو فلسطین ایکشن کی فنڈنگ کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق یہ گروپ گذشتہ ماہ برطانیہ میں دہشت گردی کے قانون کے تحت کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
’نارمل پیپل‘ کی مصنف نے یہ ریمارکس آئرش ٹائمز کے ایک کالم میں دیے، جہاں انہوں نے دلیل دی کہ اگر برطانوی قانون کے تحت ان کے اقدامات کو دہشت گردی سمجھا جاتا ہے، تو ’ایسا ہی سمجھا جائے۔‘
مزید پڑھیں
انہوں نے لکھا کہ ’میری کتابیں اب بھی برطانیہ میں شائع ہوتی ہیں، اور بک شاپس اور یہاں تک کہ سپر مارکیٹوں میں بھی وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں، حالیہ برسوں میں برطانیہ کے سرکاری نشریاتی ادارے بی بی سی نے میرے ناولوں کے دو ڈرامے بنائے ہیں، اور اس کے لیے مجھے باقاعدگی سے فیس ادا کی جا رہی ہے۔‘
’میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ میں اپنے کام سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ساتھ ساتھ عام طور پر اپنے عوامی پلیٹ فارم کو فلسطین ایکشن اور نسل کشی کے خلاف حمایت کرنے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر برطانوی ریاست اس کو ’دہشت گردی‘ سمجھتی ہے، تو شاید اسے ان تنظیموں کی چھان بین کرنی چاہیے جو میرے کام کو فروغ دیتی ہیں اور میری سرگرمیوں کو فنڈ دیتی ہیں، جیسے ڈبلیو ایچ سمتھ اور بی بی سی۔‘
فلسطین ایکشن کو جولائی میں برطانیہ کے ہوم سیکریٹری یویٹ کوپر نے کالعدم قرار دیا تھا جب کارکنوں نے مبینہ طور پر آکسفورڈ شائر میں برائز نورٹن میں گھس کر دو فوجی طیاروں کو نقصان پہنچایا، جس سے 70 لاکھ برطانوی پاؤنڈز کا نقصان ہوا۔ گروپ کی رکنیت، حمایت یا فنڈنگ پر 14 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
رونی نے کہا کہ 9 اگست کو ایک ہی دن میں ’500 سے زیادہ پرامن مظاہرین‘ کی گرفتاری کے بعد وہ بولنے پر مجبور ہوئیں۔
’اگر یہ اقدام مجھے برطانیہ کے قانون کے تحت دہشت گردی کا حامی بناتا ہے، تو ایسا ہی سمجھا جائے۔‘
انہوں نے وزیر اعظم سر کیر سٹارمر کی حکومت پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے تحفظ کے لیے شہریوں کے ’بنیادی حقوق اور آزادیوں‘ کو چھیننے کا الزام لگایا۔