سعودی عرب کے شمالی شہر حائل میں برس ہا برس سے عربی کافی کے لیے ایک خاص قسم کا برتن بنایا جا رہا ہے جسے ’القریشیات‘ کہتے ہیں۔
اس مخصوص برتن کی گردن لمبی اور اس قبیل کے دیگر ظروف کی نسبت اس کا جسم دُبلا ہے۔ اس برتن میں عربی کافی، صرف خاص مواقع پر مہمانوں کو پیش کی جاتی تھی۔
مزید پڑھیں
-
سعودی شیف جو سیکڑوں برس قدیم برتنوں میں پکوان تیار کرتے ہیںNode ID: 883663
حائل میں واقع ’الضویلی ہیریٹِج میوزیم‘ کے مالک حامد الضویلی نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’القریشیات‘ سبز اور پیلے تابنے کے ملاپ سے بنایا گیا ایک ظرف ہے۔ اس کے کئی نام ہیں جیسے کہ محل میں کافی پیش کرنے کا برتن، خطیب کافی پاٹ یا حائل کا قریشت۔‘
انھوں نے وضاحت کی ’اس قسم کے کافی کے برتن بنانا حائل کی ثقافت میں برسوں سے رائج رہا ہے۔ لوگ اس ہنر کی مشق اس قدیم زمانے سے کر رہے ہیں جب ابھی پہلی سعودی ریاست کی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی۔‘
’حائل میں مشہور کاریگر ہیں جو اس صنعت میں بہت اچھا کام کرتے ہیں۔ آج کل حائل میں کافی کے برتنوں کی ایک فیکٹری ایسی بھی ہے جسے مشرقِ وسطٰی کا بہترین کارخانہ قرار دیا جاتا ہے۔‘

دستکاری کی دیگر مصنوعات جن میں کندہ کاری، خیمے بنانا اور بُنائی بھی شامل ہیں، ان کا جنم بھی حائل سے ہی ہوا ہے لیکن یہاں کے کافی کے برتن میں ایسی خصوصیت ہے جو یہاں آنے والوں اور سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔
یہاں کے ٹھنڈے موسم، پہاڑی لینڈ سکیپ اور پانی کے قدرتی چشموں سے، حائل نقل مکانی کرنے والوں اور تجارت کی غرض سے سفر کرنے والوں کا پہلا بڑا پڑاؤ ہوا کرتا تھا۔
یہاں مسافر آرام کرتے تھے اور اپنے مویشیوں کو چارہ دیتے تھے۔ اسی روایت کے بطن سے حائل کے رہنے والوں میں میزبانی کی ثقافت پیدا ہوئی۔ اور کافی صدیوں سے اس ثقافت کا ایک اہم اور نمایاں حصہ رہی ہے۔

’القریشیات‘ کے ساتھ ساتھ، کافی کے دوسرے برتن بھی ہیں جو شہر میں خاص حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں بغدادیت بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس برتن کو عراق کے دارالحکومت سے آنے والے مسافروں نے حائل میں متعارف کرایا ہے۔
اسی سے ملتی جلتی ایک اور چیز رسلن کہلاتی ہے جس میں مختلف سائز کے برتن ہوتے ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ اسے لیوینٹ (مشرقی بحیرۂ روم کا خطہ) کے ریجن سے آنے والے مسافر اپنے ساتھ حائل میں لائے ہوں گے۔
حائل میں کافی کے برتنوں کی کاریگری اس کی تجارتی تاریخ میں بہت نمایاں رہی ہے اور آج تک یہ روش جاری ہے۔ حائل کی روایت ہے کہ نزدیک و دُور سے آنے والوں کو زمانۂ قدیم کی طرح آج بھی خوش آمدید کہا جاتا ہے۔