مکہ کا قصرِ السقّاف صرف پتھر اور دیواریں نہیں بلکہ یہاں تاریخ بستی ہے
مکہ کے شمال اور المعابدتہ کے عین وسط میں قصرِ السقّاف اپنی شان و شوکت کے ساتھ آج بھی موجود ہے لیکن یہ صرف ایک عمارت نہیں۔ یہ محل دہائیوں پر محیط سماجی، انتظامی اور سفارتی تبدیلی کا گواہ ہے۔
سعودی پریس ایجنسی ایس پی اے کے مطابق قصرِ السقّاف کو 1880 میں تعمیر کیا گیا تھا اور شروع شروع میں یہ سرکاری اور انتظامی امور کے صدر دفتر کے طور پر استعمال ہوتا تھا جہاں ممتاز سماجی اور دیگر اہم شخصیات کی ملاقاتیں ہُوا کرتی تھیں۔
بعد میں یہ امورِ ریاست کے بندوبست کا مرکز بن گیا جہاں اعلٰی عہدوں پر فائز حکومتی اہلکار اور سرکاری وفود آیا کرتے تھے۔ اسی محل میں تیسری سعودی ریاست کے ابتدائی زمانے میں کلیدی معاہدات اور قراردادوں پر دستخط بھی ہوئے ہیں۔
سنہ 1980 اور سنہ 2019 کے درمیان جب حکومتی زعما، جدید عمارتوں میں منتقل ہوگئے تو اس محل کا انتظامی کردار بھی کم ہوتا گیا۔
لیکن پھر بھی یہ محل، مکہ کے فنِ تعمیر اور ثقافتی منظر نامے کا ایک سنگِ میل ہے۔ مسجدالحرام سے اس محل کی قربت کی وجہ سے، زائرین اور وفود قدرتی طور پر اس جگہ جمع ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عمر عدنان اسرا جامعہ ام القرٰی میں فنِ تعمیر کے محکمے کے چیئرمین ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ سیاح، قصرِ السقّاف کے تعمیری فن کے امتیازی نشان آسانی سے پہچان لیتے ہیں۔
اس محل کی بنیادیں مقامی پتھروں کی مدد سے تعمیر کی گئی تھیں جبکہ کھڑکیاں، دروازے اور المشربیۃ انداز کی بالکونیاں، انڈیا اور مشرقی افریقہ سے برآمد کی گئی لکڑی سے بنی ہوئی ہیں جن سے مکہ کے اقوامِ عالم کے ساتھ تاریخی تجارتی اور ثقافتی تعلقات کا سراغ ملتا ہے۔

محل کے اندرونی حصوں میں پردے کا انتظام ہے، مہمانداری کے لیے بڑے اور کھلے کھلے ہال ہیں، رہائش کے لیے مختص مقامات دائیں بائیں پھیلے ہوئے ہیں اور صحنوں میں ہوا کا قدرتی گزر ہے۔
اس محل پر لیپائی کے لیے سجاوٹی پلستر اور ہندسی نمونے، دیواروں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں اور قصرِ السقّاف کو وہ جمالیاتی اسلوب دیتے ہیں جو مکہ کی روحانی شناخت سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
عمر اسرا نے بتایا کہ یہ محل، مکہ کی میزبانی، پرائیویسی اور حسن و سادگی کے توازن پر قائم بنیادی اقدار کا ایک اظہار ہے۔ اس کے ہال شہر کی اس تیاری کے عکاس ہیں جس نے دنیا بھر سے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہنا ہے۔ محل کی اسلامی سجاوٹ، اس کی گہری شناخت اور گِرد و نواح کا مظہر و منزہ ماحول، اس کی اہمیت کو اجاگر کر رہا ہے۔
جامعہ ام القرٰی نے اس محل کو تفصیل کے ساتھ دستاویزی شکل دی ہے، شہری اور فنِ تعمیر پر مبنی سروے کرائے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے تصویری ریکارڈ بھی سنبھال رکھا ہے۔ جامعہ کا کام بحالی اور تحفظ کے منصوبوں میں تعاون مہیا کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ تعلیمی شراکت داری کس طرح قومی سرمایے کی تفہیم کو مزیّن کرتی ہے۔

عمر اسرا کہتے ہیں کہ قصرِ السقّاف ایک تاریخی نشان نہیں بلکہ جیتا جاگتا علم ہے۔ یہ ایسا ثقافتی منصوبہ ہے جسے تحقیق کرنے والوں اور طلبہ نے مشترکہ طور پر تخلیق کیا ہے۔
مکہ شہر اور مشاعرِ مقدسہ کے رائل کمیشن نے قصرِ السقّاف کی بحالی کے لیے پروگراموں کا آغاز کیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ شہریوں اور سیاحوں کے لیے اس محل کی تاریخ کی وضاحت میں فرق نہ آئے۔
آج بھی قصرِ السقّاف میں ایونٹس ہوتے ہیں جو مکہ کے فنِ تعمیر اور اس کی سماجی اور ثقافتی تاریخ کو دھوم دھام سے مناتے ہوئے اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ مملکت، اپنے قومی سرمایے کے تحفظ کے عہد پر کاربند ہے۔