Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نایاب دروازوں کا میوزیم: عبداللہ المحیمید جنہوں نے خوشنما نجدی فن کو نئی نسل تک پہنچایا

سعودی عرب کے مشرقی ریجن کے شہر الخبر کے شہری عبداللہ المحیمید جو نجدی دروازوں پر نقش و نگار بنانے کے ماہر ہیں کا کہنا ہے ’اجداد کے فن کو زندہ رکھنا میری سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘
عبداللہ المحیمید نے مشرقی ریجن میں قدیم نجدی دروازوں کا میوزیم قائم کیا ہے، جہاں 450 سے زائد مختلف ڈیزائنز کے نایاب دروازے موجود ہیں جو اس قدیم فن کے شائقین اور اس پر ریسرچ کرنے والوں کے لیے ایک اہم مرکز بھی ہے۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ’بچپن سے ہی نجدی دروازے مجھے اپنی جانب کھینچتے تھے، دروازوں کے خوشنما رنگ اور ان پر بنے نقش ونگار میری سوچوں پر سوار رہتے۔ بالآخر میں نے اس فن کو اپنے لیے چُنا جو آج دنیا کے سامنے ہے۔‘
’پرانے دروازے عہد رفتہ کے ساتھ ساتھ تقریباً ناپید ہی ہو چکے تھے۔ بہت محدود تعداد میں جو موجود تھے وہ بہت مہنگے ہوا کرتے تھے، اب ان کی جگہ جدید دور کے دروازوں نے لے لی جس سے اس فن کے بھی معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے اس کام سے وابستہ ہوئے چالیس سال ہو چکے ہیں۔ اس دوران بھرپور کوشش کی کہ آباء اجداد کے اس فن کو زندہ رکھوں جو حقیقی نجدی شاہکار ہے۔‘

عبداللہ المحیمید کے مطابق اجداد کے فن کو زندہ رکھنا ان کی کامیابی ہے۔ (فوٹو: ایکس اکاؤنٹ)

انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی ہوتی ہے کہ اس فن کو اپنے تک ہی محدود نہ ہونے دیا بلکہ اسے نسلِ نو میں نہ صرف منتقل کیا بلکہ انہیں ’نجدی دروازوں‘ کے ماہر کاریگر بھی بنایا۔‘
عبداللہ المحیمید کہتے ہیں کہ ’میرے نزدیک ’نجدی دورازے‘ آرٹ کا مثالی نمونہ ہیں جنہیں دنیا بھر میں متعارف کرانا اور پروان چڑھانا ہے۔‘

عبداللہ المحیمید کو اس کام سے وابستہ ہوئے چالیس برس ہو چکے ہیں (فوٹو: ایکس اکاؤنٹ)

وہ وزارت ثقافت کے بھی شکر گزار ہیں جس نے دستکاری کی صنعت کے فروغ کے حوالے سے خصوصی اقدامات شروع کیے ہیں جس میں صنعت و حرفت کے حوالے سے نجدی دروازوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
واضح رہے اہل نجد کے دروازے دلکش نقش و نگار کی وجہ سے شہرت کے حامل ہیں۔

دوازوں پر بنے نقوش اور رنگ مختلف کمروں کی نشاندہی کرتے تھے۔ (فوٹو ایکس اکاونٹ)

زمانہ قدیم میں گھر میں نصب دوازوں پر بنے ہوئے نقوش اور ان پر کیا گیا رنگ مختلف کمروں اور مقامات کی نشاندہی کرتے تھے۔
مہمان خانے کے لیے جو دروازے بنائے جاتے تھے ان کے نقوش باورچی خانے سے مختلف ہوتے اور دیگر دروازوں کے نقوش مکمل طور پر جدا ہوا کرتے تھے۔

 

شیئر: