ہر کلچر اپنے ورثے کو مختلف انداز میں محفوظ کرتا ہے۔ مغرب میں سائنسی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جبکہ ماہرین کے مطابق غیر مغربی معاشروں میں نسلوں سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ وہاں لوگ مل جل کر اپنی تہذیبی میراث کی حفاظت کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں معاشرے اپنا تاریخی ورثہ، فلسفے، روایات اور تعلیمی نظام کو دیکھ کر متشکل کرتے ہیں۔ مغربی اور غیر مغربی طریقوں میں فرق ہے لیکن پھر بھی ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے یعنی اپنے ورثے کو مستقبل کی زندہ حقیقت سمجھ کر اس کی حفاظت کرنا۔
مزید پڑھیں
-
سعودی نوجوان جو ثقافتی ورثے کو زندہ رکھے ہوئے ہیںNode ID: 894966
سعودی ہیرٹِج کمیشن میں مشیر جیوانی فونتانا اینتونیلی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’مغربی اور غیر مغربی رویوں میں جو فرق ہے وہ ان ممالک کی تاریخ اور دنیا کے خطوں کی وجہ سے ہے۔ تاریخی ورثے کی حفاظت مغربی نقطۂ نگاہ سے یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد سامنے آئی جب نئی نئی آزادیوں اور دولت کی وجہ سے قدیم تہذیبوں میں ان کی دلچسپی پیدا ہوئی۔‘
’جب دانشوروں کے گروپ، فنکار، فلسفی، ماہرینِ آثارِ قدیمہ اور آرٹ کے تاریخ دانوں نے تہذیب کے آثار کی حفاظت کا مطالعہ شروع کیا، اس وقت جنم لینے والی نئی مڈل کلاس میں یہ شعور خاص طور پر بیدار ہوا۔ برطانیہ میں جان رسکن اور فرانس میں اُو ین وی او لے ڈیوک، دو ایسی ممتاز شخصیات تھیں جنھوں نے ان معاملات میں ابتدائی مکالمے کو تشکیل دیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’لگ بھگ دو سو سال قبل شمالی امریکہ اور دیگر دنیا میں دو دبستان ہائے خیال نے ورثے کے تحفظ کے لیے مستقبل کے نظریے اور اس پر عمل کی شکل تبدیل کی۔ یورپی ممالک، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ بیلجیئم، سپین، پرتگال، ہالینڈ، جرمنی اور اٹلی میں یورپ کی نوآبادیاتی پہنچ کی وجہ سے یہ نظریے اور زیادہ پھیل گئے۔‘
جیوانی فونتانا اینتونیلی نے صحرائے اعظم کے زیریں علاقوں کا خاص طور پر ذکر کیا جہاں لوگ مل جل کر ورثے کی حفاظت کرتے ہیں۔
سعودی عرب میں ورثے کا تحفظ قابلِ محسوس اور روحانی معنویت کا حامل ہے۔ مملکت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف مادی نوادارت اور مصنوعات کی اہمیت برقرار رکھنے پر زور دیتی ہے بلکہ ان سے منسوب کہانیوں کو بھی اسی اہمیت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اسے یہ ادارک ہے کہ ماضی کا فہم کس طرح، کسی قوم کے مستقبل کی شکل کا تعین کرتا ہے۔

اس ماہ کے شروع میں سعودی عرب کے ہیرٹِیج کمیشن نے بین الاقوامی ہفتۂ بحالی کی میزبانی کی جہاں ماہرین اور شوقین افراد کی بڑی تعداد جمع ہوئی جن میں فارس الحرمہ بھی تھے جو 20 برس سے روایتی لکڑی کے کام میں استاد اور کاریگر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’پرانے زمانے میں لکڑی کو تیل کے ساتھ محفوظ کیا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ طریقہ آج بھی مشترک ہے لیکن اس کی جڑیں تاریخ کے اندر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وائی کنگ وہ پہلے لوگ تھے جنھیں نے لکڑی کی چیزوں کو تیل سے محفوظ کیا۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’تحفظ کے طریقے چیز کے مقصد کو سامنے رکھ کر اختیار کیے جاتے ہیں۔ ’کچن کے برتنوں کے لیے تیل استعمال نہیں ہوتا بلکہ شہد کے چھتے کا موم استعمال ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی لوگ ماضی میں جانوروں کی چربی سے لکڑی کے بڑے بڑے دروازوں کو رگڑ اور ماحولیاتی نقصان سے بچاتے تھے۔‘
یہ طریقے مقامی فلسفے کا ایک خاص اظہار ہیں جس کی بنیاد عمل، کمیونٹی کے علم اور پائیدار ماحولیاتی موافقت میں ہے۔
جیوانی فونتانا اینتونیلی کہتے ہیں کہ ’جب تک ورثے کے پروفیشنل تحفظ کے نظریے اور اس روایت میں توازن تلاش کرنے کی کوششوں میں لگے رہیں گے، مغربی اور غیرمغربی ممالک کے تحفظ کے مستقبل کے لیے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل رہے گی۔‘