’نسلی تعصب‘ کا نظام: برطانیہ میں مسلمانوں اور عربوں کی شہریت ریکارڈ سطح پر چھینی جا رہی ہے، رپورٹ
جمعرات 11 دسمبر 2025 20:24
رپورٹ کے مطابق، 1973 سے 2002 تک برطانیہ میں شہریت ختم کرنے کا عمل صرف فراڈ کے کیسز میں ہی کیا گیا۔ (فوٹو: سکرین گریب آئی ٹی وی)
ایک نئی رپورٹ کے مطابق، برطانیہ میں ’نسلی تعصب پر مبنی دو سطحوں پر مشتمل نظام‘ موجود ہے جس کے تحت برطانوی مسلمان شہریوں کی شہریت ریکارڈ سطح پر چھینی جا رہی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق رنی میڈ ٹرسٹ اور ریپرائیو کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ واحد جی20 ملک ہے جس نے بڑے پیمانے پر شہریوں کی شہریت ختم کی، اور 2010 کے بعد یہ کارروائی 200 گنا سے زائد بار گئی ہے۔
یہ کارروائی ’عوامی مفاد‘ کے نام پر کی گئی اور بنیادی طور پر ان افراد کو نشانہ بنایا گیا جو داعش کے خاتمے کے بعد شام کے حراستی مراکز میں قید ہیں۔
برطانیہ کے مقابلے میں، فرانس میں 2002 سے 2020 کے درمیان شہریت ختم کرنے کا اقدام صرف 16 گنا سے زائد مرتبہ کیا گیا۔
رپورٹ نے اس ’خفیہ‘ نظام کی مذمت کی جو دوہری شہریت رکھنے والے یا نیچرلائزڈ برطانوی شہریوں سے ان کی شہریت چھیننے کی اجازت دیتا ہے۔
بہت سے افراد کو اپنے کیس کے متعلق شواہد کے بارے میں محض مبہم معلومات دی جاتی ہیں، اور حکومت کو انہیں یہ اطلاع دینے کی ضرورت نہیں کہ ان کی شہریت چھینی گئی ہے۔
سب سے مشہور کیس شمیم بیگم کا ہے، جو بطور نوجوان لندن چھوڑ کر داعش کے زیرِ قبضہ علاقے میں چلی گئیں۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ انہیں شام بھیجا گیا اور شہریت ختم ہونے کے بعد وہ وہاں ایک حراستی مرکز میں مقیم ہیں۔
رپورٹ میں موجودہ شہریت ختم کرنے کے کیسز میں نسلی امتیاز کو ’ ناقابلِ یقین‘ قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اس کے تحت سفید فام برطانویوں کے مقابلے میں دیگر نسلی گروہوں کو 12 گنا زائد بار نشانہ بنایا گیا۔
ہوم آفس کے ایک ترجمان نے رپورٹ کو ’ڈرانے دھمکانے والی اور غلط‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نظام برطانوی عوام کو سب سے خطرناک افراد، بشمول دہشت گردوں اور منظم جرائم پیشہ افراد، سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ان میں سے اکثریت مسلمان ہے، جن کی جڑیں مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا یا شمالی افریقہ میں ہیں۔
شہریت چھیننے کا عمل مغرب میں پہلے ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا، خصوصاً جب دوسری جنگ عظیم میں نازی حکومت نے جرمن یہودیوں کی شہریت بڑے پیمانے پر ختم کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق، 1973 سے 2002 تک برطانیہ میں شہریت ختم کرنے کا عمل صرف فراڈ کے کیسز میں ہی کیا گیا۔
عمران، جن کی بہن کی شہریت چھینی گئی، نے اخبار دی انڈیپینڈنٹ کو بتایا، ’یہاں خفیہ عدالتیں ہیں… جہاں آپ موجود نہیں ہو سکتے، اور آپ کو یہ سمجھنے کی اجازت نہیں کہ کیا زیرِ بحث ہے۔‘
رنی میڈ اور ریپرائیو نے حکومت سے فوری طور پر اس عمل کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہوم سیکرٹری کو یہ اختیار دینے والے قوانین بھی ختم کیے جائیں۔
اپوزیشن کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمان اینڈریو مچل نے دی انڈیپینڈنٹ کو بتایا کہ ’میرا نہیں خیال کہ یہ کسی سیاستدان کے لیے مناسب ہے کہ وہ قلم کی ایک حرکت سے کسی کی شہریت ختم کرے، اور اسے بغیر اطلاع کے ہوم آفس میں دراز میں ڈال دے۔
لیبر پارٹی کے رکن الف ڈبس، جو بچپن میں نازی قبضے والے چیکوسلواکیہ سے فرار ہوئے، نے اس نظام کو بالکل غیر مناسب قرار دیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنا راستہ بدلے۔
