صدر ٹرمپ نے مختلف ممالک میں تعینات 30 سفارت کاروں کو عہدوں سے ہٹا دیا
واپس بلائے گئے تمام سفارت کاروں نے جو بائیڈن کے دورے میں عہدے سنبھالے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے مختلف ممالک کے سفارت خانوں میں تعینات 30 کے قریب سفارت کاروں اور دیگر اعلٰی عہدوں پر تعینات حکام کو واپس بلا لیا ہے۔
اس اقدام کو بیرون ملک سفارتی کاری کو ایک نئی شکل دینے کی ایسی کارروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’امریکہ فرسٹ‘ ترجیحات سے ہم آہنگ ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق محکمہ خارجہ کے دو سورسز نے شناخت نہ ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ 29 ممالک میں مشنز کے سربراہوں کو پچھلے ہفتے مطلع کر دیا گیا تھا کہ ان کی مدت جنوری کے آخر میں ختم ہو جائے گی۔
ان تمام افراد نے سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں عہدے سنبھالے تھے اور صدر ٹرمپ کے دوسری بار عہدہ سنبھالنے کے بعد ابتدائی مہینوں میں ہونے والی کارروائی میں بچ گئے تھے جس میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والی تقرریوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
تاہم صورتحال بدھ کو اس وقت تبدیل ہوئی جب انہیں واشنگٹن کی جانب سے ایسے نوٹس ملنا شروع ہوئے جن میں ان کو جلد متوقع روانگی کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
سفیر صدر کی مرضی سے کام کرتے ہیں اور عام طور پر تین سے چار برس تک عہدوں پر فائز رہتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کے اس اقدام سے جو لوگ متاثر ہوئے ہیں وہ اپنی فارن سروس سے محروم نہیں ہو رہے بلکہ اگر وہ لینا چاہیں تو واشنگٹن واپسی پر ان کو دوسری اسائنمٹس دی جا سکتی ہیں۔
محکمہ خارجہ نے متاثر ہونے والے سفیروں کی تعداد پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے اقدام کا دفاع کیا ہے اور اسے ’انتظامی سطح پر ہونے والا معیاری عمل‘ قرار دیا ہے۔
اس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’سفیر صدر کا ذاتی نمائندہ ہوتا ہے اور صدر یہ اختیار رکھتا ہے کہ اس امر کو یقینی بنائے کہ دوسرے ممالک میں ایسے افراد موجود ہوں جو ’امریکہ فرسٹ‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوں۔‘
ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ براعظم افریقہ متاثر ہوا ہے اور وہاں سے 13 سفیروں کو ہٹایا گیا ہے جن میں برونڈی، کیمرون، کیپ وردے، گبون، آئیوری کوسٹ، مڈغاسکر، ماریشس، نائجر، نائجیریا، روانڈا، سینیگال، صومایہ اور یوگنڈا شامل ہیں۔
دوسرے نمبر پر ایشیا آتا ہے اور اس کے چھ ممالک کے سفیروں کو تبدیل کیا جا رہا ہے ان میں فجی، لاؤس، مارشل آئی لینڈ، پاپوا نیو گنی، فلپائن اور ویت نام شامل ہیں۔
اسی طرح امریکی انتظامیہ کے اقدام سے یورپ کے چار ممالک بھی متاثر ہوئے ہیں جن میں آرمینیا، میسیڈونیا، مونٹینیگرو اور سلوواکیہ شامل ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ سے الجیریا اور مصر بھی متاثر ہوئے ہیں۔
جنوبی وسطی ایشیا کے ممالک نیپال، سری لنکا کے سفیر بھی واپس بلائے گئے جبکہ اسی فہرست میں گوئٹے مالا اور سورینام کے نام بھی آتے ہیں۔
سفیروں کو واپس بلانے کے حوالے سے سب سے پہلے پولیٹیکو نے رپورٹ دی تھی جس پر بعض قانون سازوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا جبکہ امریکی سفارت کاروں کی نمائندگی کرنے والی یونین کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
