کھٹملوں کا خاتمہ پہلے ہی بہت مشکل تھا لیکن اب ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اور بھی سخت جان ہوگئے ہیں کیونکہ ان کی کھال (بیرونی خول) مزید موٹی ہوگئی ہے جو کیڑے مار دواو¿ں کے خلاف ان کی بہتر حفاظت کرسکتی ہے۔ ہم میں سے تقریباً ہر ایک کے لیے یہ بری خبر ہے کیونکہ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہوگا جہاں کھٹمل نہ پائے جاتے ہوں اور گھر میں کھٹمل زیادہ ہوجائیں، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، تو سارا دن کاٹ کاٹ کر برا حشر کرسکتے ہیں اور رات کی نیند بھی غارت کرسکتے ہیں۔ کھٹمل مارنے کیلئے طرح طرح کی مہنگی، روایتی، قدیم، جدید اور انتہائی بدبودار دوائیں استعمال کی جاتی ہیں لیکن یہ بھی زیادہ لمبے عرصے تک کھٹملوں کو قابو میں نہیں رکھ سکتیں اور صرف چند ماہ بعد ہی ایک بار پھر کھٹملوں کی بہتات ہوجاتی ہے۔ وہ اس لئے کیونکہ ایک مادہ کھٹمل اپنی پوری زندگی کے دوران 300 یا اس سے بھی زیادہ انڈے دیتی ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن صحتِ عامّہ سے متعلق برطانوی ایجنسی ”نیشنل ہیلتھ سروس“ نے انکشاف کیا ہے کہ ان ہی کیڑے مار دواو¿ں کے مسلسل استعمال کے نتیجے میں کھٹملوں نے بھی ان کے خلاف مزاحمت پیدا کرلی ہے اور وہ بھی اس طرح کہ ان کا بیرونی خول (جسے ان کی کھال بھی کہا جاسکتا ہے) پہلے کی نسبت موٹا ہوگیا ہے جو انہیں کیڑے مار دواو¿ں کے ہلاکت خیز اثرات سے بچانے میں مدد کررہا ہے۔فی الحال ایسی کوئی دوا موجود نہیں جو ایسے سخت جان کھٹملوں کا قلع قمع کرسکے جو بلاشبہ پریشان کن صورتِ حال ہے۔ ا