Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ تقدس کا آنچل بے توقیر کرنیوالا’’100شل میڈیا‘‘

آج کی دلہن اپنے ’’سیلف‘‘ کی’’ سیلفیاں‘‘، ’’سیلف اکاؤنٹ‘‘کے ذریعے میڈیاکو سونپ دیتی ہے
* * * * شہزاد اعظم۔جدہ * * * *
سیلفی جیسے21ویں صدی کے عجیب و غریب مرض نے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے دولہا دلہن کو بھی نہیں چھوڑا۔ اس الیکٹرانی علت نے دلہن سے اس کی شرم و لجاجت چھین لی ہے۔ کہاں وہ دور تھا کہ دلہنیں اتنی شرمایا کرتی تھیں کہ نکاح کے بعدبھی اپنے دولہا کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کر پاتی تھیں۔ بعض دلہنوں کے کئی کئی ماہ اور بعض کے کئی کئی دن یونہی گزر جاتے تھے ۔
یہی نہیں دولہا بھی انتہائی ’’لجیلے ‘‘ہوتے تھے۔ وہ اپنے نام ہو جانے کے باوجود کئی کئی روز تک دلہن کو غورسے ، پلک جھپکے بغیر دیکھنے کی ہمت نہیں نہیں کر پاتے تھے کیونکہ انہیں ڈر ہوتا تھا کہ کہیں ہر کسی کی طرح دلہن بھی انہیں آنکھ بھر کر دیکھنے پرسخت سست سناتے ہوئے یہ نہ کہہ دے کہ ’’شرم کر بے حس انسان، کیا تمہارے گھر میں ماں بہنیں نہیں؟‘‘ ہمارے دورکے دولہا اور دلہنوں کے ا نہی لچھنوں کے پیشِ نظر خاندان کے بزرگوںنے ’’آرسی مصحف ‘‘جیسی رسمیں متعارف کرائی تھیں ۔
آرسی مصحف ایسی دانشورانہ، شاعرانہ ، ادیبانہ اور احمقانہ رسم ہے جو آج بھی کم از کم ہمارے ہاں پورے طمطراق کے ساتھ موجود ہے ۔ اس رسم میں نکاح کے بعددولہا اور دلہن کو صوفے پر ساتھ ساتھ بٹھا کر انہیں ایک آئینہ تھما دیاجاتا ہے ۔ اب یہ 2ہستیاں ایک آئینے میں ایک دوسرے کوتاڑتی ہیں اور فیصلہ کرتی ہیں کہ ان کی قسمت بگڑ گئی یا سنور گئی ۔ دیکھا جائے تو یہ بھی ایک سیلفی ہی ہوتی ہے، فرق اتنا ہے کہ اسے کیمرے کی آنکھ نہیں بلکہ انسانی آنکھ اپنے اندر محفوظ کرتی ہے اور ساری زندگی کیلئے اسے ذہن کے پردۂ تخئیل پر آویزاں کر دیتی ہے۔
  دوسری جانب آج کے دور کی دلہنیں اور دولہے ہیں جو بچپن
اور لڑکپن کے ادوارسے ہی سیلفیاں لینے کے عادی ہوتے ہیں ۔ وہ پہلے جوانی اور پھر کسی ہم نفس کی زندگی میں قدم رکھنے کے باوجود سیلفی لینا ترک نہیں کرتے۔ اس’’ علتِ معترضہ‘‘کی ایک انتہاء اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب آج کی دلہن کونکاح پڑھوانے کے بعد اسٹیج پر اپنے دولہا کے ساتھ لا کر بٹھایاجاتا ہے اور دلہن محترمہ تمام تر شرم و حیا کواپنی آستینوں یا دوپٹے کی طرح فراموش کر کے دولہا کے ساتھ سیلفیاں بنانے میں مگن ہو جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ دولہا میاں بھی اپنی دلہن کو براہ راست حقیقی آنکھوں سے دیکھنے کی بجائے سیلفیاں کھینچ کھینچ کر دیکھتے ہیںاور اگلے ہی لمحے دھڑا دھڑانہیں فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام اورایسی ہی دیگر سائٹس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ دورِ حاضر کے اس چلن پر ایک صاحبِ دانش ناقد نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ :
 آج وہ دور آ چکا ہے جب دلہن اپنے ’’سیلف‘‘ کی’’ سیلفیاں‘‘، ’’سیلف اکاؤنٹ‘‘کے ذریعے اپنے تقدس کے آنچل کے ’’100شل‘‘ میڈیاکو سونپ دیتی ہے جہاں لوگ اس کی ہر سلوٹ، ہر شکن کو’’لائیک‘‘ کے عوض بے توقیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے تصویرِ کائنات کا رنگ پھیکا پڑتا جا رہا ہے ۔
 ’’ذہانت کے مارے‘‘ ایک اور صاحب نے فرمایا ہے کہ فرائض کے دوران سیلفی کو یادرکھنا حماقت اور سیلفی کے دوران فرائض کویاد رکھنا فطانت کا ثبوت ہے۔دھنک کے صفحے پر شائع شدہ تصویر پر غور کریں تو وہ ’’ذہانت‘‘ کی نفی کرتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ اس میں پولیس اہلکار فرائض کی ادائیگی کے دوران سیلفی لے رہا ہے یوں وہ بقول شخصے ’’حماقت‘’ کا ثبوت فراہم کر رہا ہے جبکہ اس کا قدرے ’’ذمہ دار‘‘ ساتھی ، اسے منع کرنے کے باوجود کہا نہ ماننے پرحیرت و استعجاب سے دیکھ رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ ایسے ہی لوگ ہیں جو پولیس کے کردار پر ’’غفلت ‘‘ یا ’’کوتاہی‘‘ کا کلنک لگانے کا باعث بنتے ہیں۔جب کوئی سانحہ ہو گزرتا ہے تو مختلف تحقیقات کے بعد کہا جاتا ہے کہ یہ سانحہ در حقیقت ’’سیکیورٹی بریچ‘‘ کی وجہ سے پیش آیا۔ اس وقت کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ آخر فرائض کی ادائیگی کے لئے جب سیکیورٹی اہلکار موجودتھے تو یہ ’’بریچ‘‘ کیسے ہوگئی؟ اس کا جواب یہ تصویر ہے جو زمینی حقیقت بیان کر رہی ہے کہ اگر اس انداز میں سیکیورٹی کے فرائض انجام دیئے جائیں تو پھر سمجھ لیجئے کہ ’’بریچ‘‘ تو لازمی ہے۔
  فی الوقت تو بے چاری پولیس کا ذکر ہو رہا ہے ، اس لئے اسی کی بریچ گنوائی جا رہی ہے وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز کے اکثر محکموں میں جا بجا بریچ کار فرما دکھائی دیتی ہے۔ کیا صحت، کیا تعلیم، کیا فراہمی و نکاسیٔ آب اور کیا پانی و بجلی، ہر شعبے میں’’بریچوں کا راج‘‘ ہے ۔اگر ہم اس ’’بریچ‘‘ پر غلبہ پا لیں تو ترقی کی منزل تک ہماری ’’ریچ‘‘ ممکن ہوجائے گی۔

شیئر: