ڈاکٹر عابد علی۔ مدینہ منورہ
جہاں مایوسیاں ہی مایوسیاں ہوں، جہاں ناامیدی اور قنوطیت مسلط کردی جائے، جہاں سچ کہنا گناہ بن جائے ،جہاں حادثہ دیکھ کر لوگ تڑپتے شخص کی مدد اس لئے نہ کر پائیں کہ اسکی کہیں گواہی نہ دینی پڑ جائے اور اگر گواہی دے بھی چکا ہو تو موت کے ڈر سے اپنی گواہی بدل دے، جہاں روزانہ جنازے اٹھا اٹھا کرکندھے تھک جائیں ،روتے روتے ماؤں کی آنکھوں میں آنسو ختم ہو جائیں، موسم روٹھ جائیں، آنکھیں مسکراتے ہوئے چہرے دیکھنے کو ترس جائیں،رات کی نیندیں خوابوں سے دور ہو جائیں، جہاں زندگی دکھوں اور مسائل کے بوجھ تلے دب چکی ہو۔ الفاظ بے معنی ہونے لگیں،صاحبان کے قول و فعل میں زمین آسمان کا تضاد ہو، وہاں حوصلہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔بقول شاعر:
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے
زندگی میں ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ بچپن میں کچھ، جوانی میں کچھ اور بڑھاپے میں سب کچھ۔ جب انسان سب کچھ سیکھ جاتا ہے ، وہ اس جہاں سے کوچ کر جاتا ہے اور اس طرح اس کی لگاتار ان تھک محنت ضائع ہو جاتی ہے، انسان ہار جاتا ہے۔بقول شاعر:
میں تجھے کھو کے بھی زندہ ہوں، یہ دیکھا تو نے
کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے
حوصلہ دینے کے لئے پناہ گاہیںجبر کی ہوں، غیر سرکاری تنظیموں یعنی ’’این جی او‘‘کی ہوں یا سرکاری ہوں ،سب کی سب بکتی ہیں۔ ہر پناہ گاہ کا الگ ٹھیکیدار ہے جو لوگوں کو ڈرا دھمکا کر رکھتا ہے۔پناہ ڈھونڈنے والے اپنی کمزوری یعنی حوصلہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو نذرانے دے کر عارضی طور پر عافیت کی چادر اوڑھ لیتے ہیں ۔اس طرح اپنی سانسوں کا ٹیکس دے کر پیٹ بھرنے میں لگ جاتے ہیں اور جب سانس اکھڑنے لگتی ہے تو صرف اللہ کریم کی پناہ مانگتے ہیں۔واقعی ہم کیسے ہیں:
یاالٰہی عجیب لوگ ہیں ہم
دست بستہ ہیں، منہ پہ تالا ہے
زمانہ طالب علمی میں ایک ایک تحریر پڑھی تھی۔ وہ آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے ۔یہ واقعہ اسپتال میں داخل ایک مریض کا ہے جو حوصلے کی جیتی جاگتی تصویر بنا رہا۔بقول شاعر:
عزم راسخ ہو تو دیتی ہے صدا خود منزل
حوصلہ ہو تو کوئی راہ بھی دشوار نہیں
٭٭٭
بلند حوصلہ ہم ہیں شکست کیوں مانیں
یہ ممکنات کی دنیا ہے راستے ہیں ہزار
دو زخمی مریض اسپتال کے ایک ہی کمرے میں داخل تھے ۔دونوں میں سے ایک مریض کو دن میں صرف ایک گھنٹے کے لئے بستر سے اٹھ کر بیٹھنے کی اجازت تھی تاکہ اس کے پھیپھڑوں میں جمع ہونے والے پانی کو خارج کیا جا سکے۔ اس بیمار کی چارپائی کمرے میں موجود واحد کھڑکی کے قریب تھی جبکہ دوسرے مریض کو اپنا سارا وقت بستر پر لیٹ کر گزارنا پڑتا تھا۔
دونوں مریض ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہونے کے باوجود آپس میں گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے گھر بار، بیوی بچوں، اپنی ملازمت، غرض زندگی کے ہر پہلو پر گفتگو کرتے تھے۔ دن کے اس ایک گھنٹے میں جب کھڑکی کے قریب والے مریض کو اٹھ کر بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی ،وہ پوری تفصیل سے باہر نظر آنے والی دنیا کی چیزوں کے بارے میں اپنے ساتھی مریض کو آگاہ کرتا تھا۔ دوسرے بستر پر موجود مریض اس ایک گھنٹے کا شدت سے منتظر رہنے لگا تھا۔ جب کمرے میں بند اس کی محدود زندگی کھلے آسمان تلے ایک وسیع و عریض دنیا کی مصروفیت،چلتے پھرتے لوگوں کی رنگ و نور سے بھری دنیا کا ایک حصہ بن جاتی تھی۔کھڑکی کے قریب بیٹھا شخص جب پوری تفصیل سے باہر کی دنیا کا نقشہ کھینچتا تھا تو دوسرا مریض اپنی آنکھیں بند کر لیتا تھا اور تصور میں خود کو اس خوبصورت منظر کا حصہ سمجھتا۔
کئی دن اور کئی ہفتے اسی طرح گزر گئے پھر ایک صبح جب نرس حسب معمول پانی اور تولیہ لے کر مریضوں کے کپڑے تبدیل کرانے آئی تو کھڑکی کے قریب والا مریض آنکھیں بند کئے ابدی نیند سو رہا تھا۔اسپتال کے عملے کو اطلاع کروا دی گئی اور وہ بستر خالی ہو گیا۔ دوسرے روز اس مریض کے ساتھی نے کھڑکی کے قریب والے بستر پر شفٹ ہونے کی خواہش ظاہر کی جسے نرس نے بخوشی پورا کردیا ۔جیسے ہی نرس کمرے سے باہر گئی مریض نے زخمی حالت کے باوجود خود کو کہنی کے بل اوپر کیا تاکہ وہ کھڑکی کے باہر کا منظر دیکھ سکے لیکن وسیع و عریض آسمان اور رنگ و نور کی دنیا کی بجائے ایک بے حد اونچی سخت کنکریٹ کی بے جان دیوار اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ آخر وہ کون سا جذبہ تھا جس کے تحت میرا ساتھی ایک خوبصورت دنیا کا نقشہ میرے سامنے کھینچا کرتا تھا؟ جبکہ کھڑکی کے سامنے تو صرف ایک بے جان دیوار ہے۔ وہ نرس سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔ نرس نے کہا شاید وہ تمہیں زندہ رہنے کا حوصلہ دینا چاہتا تھا حالانکہ وہ خود تو یہ دیوار بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ دماغی چوٹ سے اس کی بینائی جا چکی تھی۔
کہتے ہیں غم بانٹنے سے غم آدھے رہ جاتے ہیں لیکن خوشی بانٹنے سے خوشی دگنی ہو جاتی ہے۔ دوسروں کو خوشی دینے والے خود اپنی ذات کے لئے بھی خوشی اور اطمینان خریدتے ہیں لیکن ہمارے درمیان آج ایسا کون ہے جو آج کے غیر یقینی اور ایک حد تک سنگین حالات میں اس زخمی مریض کا کردار ادا کرے۔اتنی خوبصورت دنیا کو انسان نے کس قدر جہنم بنا ڈالا ہے جس طرف بھی نگاہ اٹھا کر دیکھو کرپشن اور ڈھٹائی کی ایک دیوار نظر آتی ہے۔ ماحول کو اس قدر آلودہ کردیا گیا ہے کہ سانس لینا مشکل ہو گیا ہے۔ہے کوئی جو مجھے اس ماحول میں زندہ رہنے کا حوصلہ دے؟حوصلے کے بارے میں مختلف اشعار ملاحظہ فرمائیں:
حوصلہ تجھ میںنہ تھا مجھ سے جدا ہونے کا
ورنہ کاجل نہ تری آنکھ میں پھیلا ہوتا
٭٭٭
بخشا ہے ٹھوکروں نے سنبھلنے کا حوصلہ
ہر حادثہ خیال کو گہرائی دے گیا
٭٭٭
اپنے اپنے حوصلے، اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے تمہیں، سارا جہاں رہنے دیا
٭٭٭
اے دوست میرے حال زبوں پر نہ طنز کر
کچھ حوصلے بھی ہیں مری بے چارگی کے ساتھ