Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گڈ نیوز ، بیڈ نیوز

ہمارے آج کے ابن سینا ، الرازی نسل انسانی کی بقا کے لئے کام کرنے کو بیتاب ہیں
* * * * جاوید اقبال * * * *
2خبریں ! گڈ نیوز اینڈ بیڈ نیوز ! لیکن انہیں تحریر کرنے سے پہلے ایک ذاتی مشاہدہ بیان کر دوں ۔ جامعہ الملک سعود ،عالمِ اسلام سے منتخب ذہین طلباء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے اپنے ہاں وظائف پر مدعو کرتی ہے ۔ انہیں مختلف کالجوں میں داخلہ دیا جاتا ہے ۔ اب ہوتا یوں ہے کہ چونکہ ان کے نصاب میں انگریزی ایک اساسی اور لازمی مضمون کے طور پر شامل ہوتی ہے اسلئے انہیں ابتدائی 6ماہ کا جامعہ کے کلیتہ اللغات و الترجمہ میں صرف زبانِ فرنگ کی تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے ۔ 2010ء میں ایسے ہی طلباء کلیتہ الزراعہ سے وہاں بھیجے گئے ۔
ان کا تعلق مصرِ پاکستان ، نائیجیریا ، یمن ، گنی ، کینیا ، سعودی عرب اور چند دیگر افریقی ممالک سے تھا ۔ سب اپنے ممالک سے زراعت میں گریجویشن کر کے آئے تھے اور ڈاکٹریٹ کرنا چاہ رہے تھے ۔ 2دیگر اساتذہ کے علاوہ مجھے بھی ان کی تدریس کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ اب چونکہ وہ مختلف ممالک سے تھے اس لئے ان کا انگریزی کا معیار بھی یکساں نہیں تھا ۔ مصر، پاکستان ، نائیجیریا اور کینیا کے طلباء انتہائی اعلیٰ پائے کی انگریزی تحریر کرتے اور بولتے تھے ۔ ابتدائی 2ہفتے تو بڑے ہموار اور خوشگوار گزرے، پھر میں نے محسوس کیا کہ تینوں پاکستانی طلباء کمرۂ جماعت میں نیم خوابیدہ اور غیر حاضر دماغ رہنے لگے ۔ ان کی دلچسپی میں بھی کمی آتی گئی ۔ ایک دن میں نے ان کے رویے پر خفگی کا اظہار کیا تو کلاس کے بعد تینوں میرے پاس رک گئے ۔
کمرہ خالی ہو جانے کے بعد انہوں نے معذرت خواہانہ انداز میں ساری صورتحال واضح کی ۔ وہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے گریجویشن کر کے آئے تھے جو کہ ایشیاء کا بہترین تعلیمی ادارہ ہے ۔ جامعہ الملک سعود کے اساتذہ نے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگائی کہ زرعی معلومات ان تینوں کے پاس باقی سب طلباء سے کئی گنا زیادہ اور جدید تھیں چنانچہ انہوں نے تینوں پاکستانیوں کو اضافی تحقیقی کام بھی دینا شروع کر دیا ۔ یہ تحقیق متعدد نئے موضوعات کااحاطہ کرتی تھی ۔ اب تینوں دن کے وقت تو انگریزی پر توجہ دیتے اور عشاء کے بعد زرعی تجربہ گاہ کا رخ کرتے ۔ر یگزار سے اٹھائی نیم جان مٹی سے اٹھے بیجوں کا مشاہدہ کرتے، تحقیق تحریر کرتے رہتے ۔ یوں نصف شب کے قریب ہاسٹل واپسی ہوتی ۔ پھر اگلی صبح نیم خوابیدہ ذہن شانوں پر سنبھالے انگریزی کیلئے پہنچتے ۔
توجہ میں فرق تو آنا ہی تھا ۔ آخری امتحان میں وہ اچھے نمبروں سے کامیاب تو ہو گئے لیکن وہ نتائج حاصل نہ کر سکے جن کی میں ان سے توقع کر رہا تھا ۔ فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلباء نے ابتدائی 2ہفتوں کے دوران ہی اپنی ذہانت کا ایسا سکہ جمایا تھا کہ ان کے اساتذہ نے انہیں اعلیٰ اور پیچیدہ تحقیق کرنے کا فریضہ سونپ دیا تھا ۔ ان کے تحریر کئے گئے مقالے بین الاقوامی مؤقر زرعی رسائل میں شائع ہوتے رہے ۔ بس مؤلف کوئی اور ہوتا!! اور اب وہ 2خبریں!لیکن گڈ نیوز فرسٹ! برطانیہ کے برقی توانائی کے معروف ادارے انرجی یو کے میں کام کرنیوالے ایک نوجوان پاکستانی نے یورپ کے بہترین انجینیئر کا ایوارڈ حاصل کر لیا ہے ۔ سارے براعظم میں سے منتخب کئے گئے ذہین ترین الیکٹرونکس کے ماہرین کی فہرست میں سے 3کو آخری مقابلے کے لئے منتخب کیا گیا تھا اور پھر ان میں سے ایک کو ایوارڈ دیا گیا جو لاہور کا حمزہ ہارون تھا ۔ انرجی یوکے ہر سال یہ مقابل منعقد کراتا ہے اور برقی توانائی کے میدان میں مثالی کام کرنیوالوں کی فہرست میں سے بسیار عرق ریزی کے بعد ایک کا انتخاب کرتا ہے ۔ حمزہ ہارون کو اس کے مثالی کام کی وجہ سے سائنس ، ٹیکنالوجی ، انجینیئرنگ اور ریاضی (STEM)کا سفارتکا ر بھی قرار دیا گیا ہے ۔
یہ نوجوان پاکستانی انجینیئر اس وقت برطانیہ کے جوہری توانائی کے 2اسٹیشنوں پر لیڈ کنٹرول اینڈ الیکٹرونکس انجیئنر گروپ کے سربراہ کے طور پر کام کر رہا ہے اور انجینیئرنگ کے طلباء کی راہنمائی کے فرائض بھی انجام دیتا ہے ۔ حمزہ ہارون 2008ء میں لاہور گرامر اسکول سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ گیا تھا اور اس نے سرے یونیورسٹی سے 2012ء میں الیکٹرونکس انجینیئرنگ میں بیچلرز آنرز ڈگری حاصل کرنے کے بعد انرجی یوکے میں ملازمت حاصل کی تھی ۔ حمزہ کا کہنا ہے کہ اسے ملنے والا ایوارڈ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سائنسی تحقیق کے ہر میدان میں پاکستان دنیا بھر کی راہنمائی کر سکتا ہے ۔ اور اب دوسری خبر! بیڈ نیوز ! امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی USAIDنے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں تحقیقی منصوبے پر دی جانیوالی ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی امداد منسوخ کر دی ہے ۔ ذرائع کے مطابق امریکی ادارے نے یہ اقدام اس وقت اٹھایا ہے جب پنجاب میں قائم پاک امریکی مرکز برائے زرعی تحقیق کے اس منصوبے پر 50فیصد کام مکمل ہو چکا ہے ۔
امداد منسوخ ہونے سے اس مرکز میں کام کرنے والے 79زرعی سائنسدانوں اور اہلکاروں کو بیر وزگاری کا سامنا کرنا پڑا ۔ دسمبر 2014ء میں شروع ہونیوالے منصوبے نے5برسوں میں مکمل ہونا تھا ۔ معاہدے کی منسوخی کی اطلاع زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو یو ایس ایڈ پروگرام کے معاہدہ افسر نے اس وقت دی جبکہ 12جدید تجربہ گاہیں ، لیکچر تھیٹر ،3منزلہ عمارت اور تحقیقی لائبریریوں کی تعمیر ہو چکی ہے ۔ وائس چانسلر نے امریکی ادارے کے اس اقدام کو انتہائی ناروا قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ مرکز میں ہونیوالا تحقیقی کام زرعی سائنس میں انتہائی مثبت پیشرفت متعارف کراتا اور اس کے نتائج تیسری دنیا کیلئے مشعل راہ ہوتے ۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ معاہدے کی منسوخی اس فیصلے کے صرف چند یوم بعد عمل میں آئی ہے جس میں امریکی پینٹاگا ن نے کولیشن فنڈ کی مد میں پاکستان کو 5کروڑ ڈالر کی ادائیگی منسوخ کر دی ہے ۔ امریکہ نے محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کا قلع قمع کرنے کیلئے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ ناکافی ہیں اور یہ کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ نہیں کر رہا ۔ گڈ نیوز اور بیڈ نیوز تو دونوں یہاں ختم ہوئیں لیکن با ت ابھی باقی ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ ایک تاجر ہیں ۔ عمارتیں کھڑی کرتے ہیں ۔ انہیں یقینا اس تلخ حقیقت کا علم نہیں ہو گا کہ اس وقت انسان کو کرۂ ارض پر اپنی بقا یقینی بنانے کیلئے جتنی ضرورت خوراک کی ہے اتنی تجارت اور عمارتوں کی نہیں اور ابن آدم کی زندگی کو استمرار دینے کیلئے تجربہ گاہوں کا کام کرنا انتہائی ضرور ی ہے ۔ لگتا ہے مسٹر ٹرمپ نے تاریخ اسلام کا کبھی مطالعہ نہیں کیا ۔ انہیں مطلع کیا جاتا ہے کہ کبھی ایک ابن سینا تھا ۔ جابر ابن حیان تھا ۔ الرزای تھا جن کی تحقیق طاعون زدہ تاریک یورپ کو روشنیوں میں لے آئی تھی اور وہی اجالا امریکی دریافت کا سبب بنا تھا ۔ ڈونالڈ ٹرمپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ دہشتگردی جیسے لنگڑے بہانے بنا کر عالم اسلام کی تجربہ گاہوں پر تالے نہ ڈلوائیں۔ ہمارے آج کے ابن سینا ، الرازی نسل انسانی کی بقا کے لئے کام کرنے کو بیتاب ہیں اور یقین کریں ان کا کام آپ کیلئے بھی کاروبار کی نئی راہیں کھولے گا ۔

شیئر:

متعلقہ خبریں