Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قطرہ خون زمین پر گرنے سے پہلے قبول ہونے والا عمل، قربانی

محمد منیر قمر۔الخبر
 
قرآن وسنت کی واضح روسے ماہ ذوالحجہ بڑی حرمت وفضیلت والا مہینہ ہے اور اسی ماہ کی 10 تاریخ ’’یوم نحر وقربانی‘‘ اور ’’عیدالاضحی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اِسی عید کو قربانیوں کی وجہ سے ’’عید قربان‘‘ کہا جاتاہے۔اسی دن کو’’یوم حج اکبر‘‘ بھی قرار دیا گیاہے۔ عید کے دن کو ہی ’’یوم حج اکبر‘‘ قرار دینے سے متعلق حضرت ابوہریرہؓسے مروی حدیث کو امام بخاری نے تعلیقاً اور ابودائود نے موصولاً بیان کیاہے جس میں ہے’’حج اکبر کادن قربانی کا دن ہے اور’’حج اکبر‘‘ حج ہے‘‘ بخاری شریف میں ہے کہ’’لوگوں کے حج اصغر کہنے کے مقابلہ میں اسے ’’حج اکبر‘‘ کہا گیا‘‘اس عید کے دن کا محبوب ترین عمل قربانی کے جانوروں کا خون بہاناہے۔ قربانی کی اہمیت کا اندازہ تواسی بات سے لگایا جاسکتاہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے 30ویں پارے کے سورہ کوثر میں اس کا حکم دیا ہے چنانچہ ارشاد الٰہی ہے ’’اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر‘‘اس آیت کے لفظ’’نحر‘‘ کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں جنھیں ذکر کرنے کے بعد امام ابن کثیر ؒ نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد قربانیوں کا ذبح کرنا ہے۔
 
 قربانی واجب ہے یا سنت؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ’’یہ قربانی تمہارے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے‘‘ نے ان قربانیوں کی اصل حقیقت کی طرف اشارہ کردیاہے کہ یہ کوئی معمولی کام یامحض گوشت خوری کا ایک ذریعہ نہیں بلکہ یہ تو جدالانبیاء حضرت ابراہیم  ؑ کی ایک عظیم یادگار ہے اور اس یادگار کی اہمیت کا اندازہ کرنا ہو تو قصص الانبیاء پرمشتمل کوئی معتبر کتاب پڑھ کردیکھیں۔ تفسیر قرآن میں ’’ذبحِ عظیم‘‘ اور احادیث رسول اللہ  میں اس یادگار واقعہ کا مطالعہ کرکے دیکھیں اور اگر زیادہ نہیں تو کم از کم قرآن کریم کاباترجمہ مطالعہ ہی کرلیں۔ آپ کو ان قربانیوں کی عظمت کا آسانی سے اندازہ ہوجائے گا۔ ہم یہاں حضرت ابراہیم ؑ کے اپنے اکلوتے لخت جگر کو رضائے الٰہی کی خاطر قربان کرنے کے واقعات کی تفصیلات وجزئیات کے ذکر میں نہیں جانا چاہتے تاکہ بات طویل نہ ہوجائے البتہ اتنا ضرورعرض کریں گے کہ کم از کم قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑکے جذبۂ فدائیت اور ادائے فنائیت کو دہرالیں کیونکہ ’’ذبح عظیم‘‘ اور اپنے خالق ومالک کوراضی کرنے کے لئے حضرت خلیل کی زندگی کا ایک ایک واقعہ اپنے اندر عبرتوں اور نصیحتوں کا ایک بحربیکراں لئے ہوئے ہے۔ قرآن کریم میں حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام اور خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کے واقعات مختلف مقامات پرمذکور ہیں۔ان مقامات میں سے سورہ صافات کے تیسرے رکوع میں اس قربانی اور ’’ذبح عظیم‘‘ کا واقعہ مذکورہے جس کی یاد میں ہماری یہ قربانیاںہیں۔ ان قربانیوں کے سنت ابراہیمی ہونے کے علاوہ یہ ہمارے نبی آخرالزماں  کی بھی ایسی سنت  ہے کہ آپ نے سفر وحضر میں ہر سال اس پر عمل فرمایا جو اس بات کاثبوت ہے کہ یہ سنت موکدہ ہے اور جمہور اہل علم کا یہی قول ہے۔ صحابہ وتابعین، ائمہ کرام اور فقہاء ومحدثین کی اکثریت نے بھی اسے سنت ہی قرار دیاہے لیکن امام ابوحنیفہؒ نے ہر صاحبِ استطاعت کے لئے قربانی کو واجب قرار دیاہے جبکہ مشہور محقق علامہ ابن حزمؒ نے لکھاہے کہ صحابہ کرامؓ  میں سے کسی سے بھی یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے قربانی کو واجب قراردیاہو جبکہ اکثریت سے یہ ثابت ہے کہ یہ غیرواجب ہے لیکن قربانی کے شرائع دینیہ میں سے ایک اہم عبادت اور شعار اسلام ہونے میں کسی کو بھی کوئی اختلاف نہیں۔
 
اس سابقہ تفصیل سے قربانی کی فضیلت واہمیت واضح ہوجاتی ہے جبکہ متعدد احادیث میں بھی فضیلت وارد ہوئی ہے ان احادیث میں سے چند درج ذیل ہیں
 
 ترمذی وابن ماجہ میں ہے’’قربانی کے دن بنی آدم کے اعمال میں سے اللہ تعالیٰ کو اتنا زیادہ محبوب عمل کوئی نہیں جتنا قربانی کے جانوروں کا خون بہانا ہے۔ قیامت کے دن (نامہ اعمال میں درج کرنے کے لئے) جانور سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت لایا جائے گا اور قربانی کے اس عمل کو اللہ تعالیٰ قطرئہ خون کے زمین پر گرنے سے پہلے ہی شرف قبولیت سے نواز دیتاہے لہٰذا تم خوشی خوشی قربانی کیاکرو‘‘ ابن ماجہ ومسند احمد میں ہے’’یہ قربانی تمہارے باپ( حضرت) ابراہیم ؑ کی سنت ہے‘‘ اسی حدیث میں ہے کہ’’ ہربال کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے‘‘اور قربانی کے جانوروں کی اون کے متعلق یوں مذکورہے’’اون کے ہر ریشے کے بدلے میں نیکی ملتی ہے‘‘ قربانی کے سنت ابراہیمی ہونے کا ثبوت تو خود قرآن کریم میں مذکور ہے چنانچہ سورہ الصافات آیت107میں ارشاد الٰہی ہے’’اور ہم نے ایک بڑی قربانی (اسماعیل کے) فدیے میں دے کراسے چھڑا لیا‘‘ دارقطنی میں ہے’’عید کے دن کسی نیک کام میں چاندی خرچ کرنا بھی اتنا کارِ ثواب نہیں جتنا کہ خون بہاناہے‘‘ ۔
 
نبی اکرم  سفروحضر، ہر حال میں ہرسال قربانی دیا کرتے تھے۔ ترمذی شریف میں حضر ت عبداللہ بن عمرؓ  فرماتے ہیں’’نبی 10 سال مدینہ منورہ میں مقیم رہے اور قربانی دیتے رہے‘‘اور آپ کے سفر کے دوران قربانی کرنے کے بارے میں تو ایک صحیح حدیث ترمذی ونسائی اور ابن ماجہ میں حضرت ابن عباسؓ سے بھی مروی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں’’ہم نبی کے ساتھ ایک سفرمیں تھے کہ عیدالاضحی آگئی تو ہم ایک گائے میں7 آدمی اور ایک اونٹ میں 10 آدمی شریک ہوئے‘‘ان احادیث کے مجموعی مواد سے بھی قربانی کی اہمیت وفضیلت واضح ہوجاتی ہے۔
 
جو شخص قربانی کا جانور خریدنے یا اونٹ ،گائے میں حصہ ڈالنے کی طاقت رکھتاہو اس کے باوجود بھی اس سنت ابراہیمی وسنت مصطفوی کا احیا نہیں کرتا، اس پرنبی اکرم نے سخت وعید فرمائی ہے۔ آپ کے عتاب شدید کااندازہ اس حدیث سے ہوتاہے جو ابن ماجہ ومسنداحمد میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے جس میں ارشاد نبوی ہے’’جو شخص قربانی کی طاقت رکھتاہو پھر بھی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے‘‘گویا جو شخص طاقت کے باوجود قربانی جیسے عمل اور شعار اسلام سے غفلت وسستی اختیار کرتاہے اسے مسلمانوں کی عیدگاہ میں جانے اور نماز عید ادا کرنے سے کیا حاصل ہوگا۔اس حدیث شریف کو سامنے رکھ کرغور فرمائیں کہ کس قدر بدنصیب ہیں وہ لوگ جو شادی بیاہ اور پیدائش واموات کے موقعوں، قومی وملکی رسموں اور علاقائی رواجوں پرتو خلافِ شرع پانی کی طرح پیسہ بہائے جاتے ہیں لیکن سال کے بعد جب عیدالاضحی آتی ہے تو قربانی کے لئے ایک بکرا یا مینڈھا خریدنے یا اونٹ گائے میں حصہ دار بننے کی توفیق نہیں ہوتی جبکہ یہ بھی نہیں کہ حاجیوں کی طرح ہر ہر فرد کا قربانی کرنا ضروری ہو بلکہ غیر حاجیوں کے لئے تو پورے گھر والوں کی طرف سے صرف ایک ہی قربانی کرلینا بھی کافی ہے اور اپنی مرضی سے کوئی زیادہ قربانیاں دے تو زیادہ ثواب ہے چنانچہ ترمذی وابن ماجہ میں حضرت عطاء بن یسارؒ سے مروی ہے کہ میں نے میزبانِ رسول  حضرت ابوایوب انصاریؓ سے پوچھا’’نبی کے عہد مسعود میں تم قربانیاں کیسے کیا کرتے تھے؟‘‘ توانہوں نے جواب دیا’’نبی کے زمانے میں ایک آدمی اپنی اور اپنے سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی دیا کرتا تھا‘‘ اس کی تائید سنن اربعہ اور مسنداحمد کی ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے’’ہر گھر والوں پر ہرسال ایک جانور کی قربانی ہے‘‘انہی احادیث کی بنا پر جمہوراہل علم کے نزدیک سارے گھر والوں کی طرف سے صرف ایک قربانی ہی کافی ہے (الفتح الربانی کی شرح بلوغ الامانی) امام شوکانیؒ نے لکھاہے کہ سنت نبوی نے فیصلہ کردیاہے کہ ایک قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کرجاتی ہے ،چاہے گھر والوں کی تعداد ایک سویااس سے بھی زیادہ ہو۔
 
اگر کسی میں قربانی کے لئے مستقل ایک جانور خریدنے کی طاقت نہ ہو تو ایک گائے میں 7 آدمی مل کر خریدلیں۔ وہ ان 7 آدمیوں اور ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے بھی کفایت کرجائے گی۔ گائے کے معاملہ میں شراکت کاحکم منیٰ میں موجود حاجیوں کی قربانی (ہدی) اور دوسرے ممالک اور شہروں کے لوگوں کی قربانی اس اعتبارسے سب کے لئے برابرہے کہ اس میں7 افراد منیٰ میں اور7 گھروں کے تمام افراد غیر منیٰ میںشریک ہوسکتے ہیں لیکن اونٹ اگر ہدی کے لئے ہو تو صرف 7 ہی افراد کے لئے اور اگر عام قربانی کے لئے ہو تو 10 گھروں کے تمام افراد کے لئے کفایت کرجاتاہے۔
 
 قربانی کے معاملہ میں تو یہ گنجائش بھی موجودہے کہ عید کے دن 10ذوالحجہ تک اتفاق سے کسی کو توفیق نہ ہوسکے تو اگلے دن11 ذوالحجہ کو کرلے۔11 کو بھی نہیں ہوسکی تو 12 ذوالحجہ کو ہی سہی، یہ 3 دن تو مشہور ہیں جبکہ نبی اکرم کے ارشادات سے تو اس بات کا پتہ چلتاہے کہ13 ذوالحجہ کو بھی قربانی کی جاسکتی ہے چنانچہ مسنداحمد ،دارقطنی اور صحیح ابن حبان میں حضور اکرم کا ارشادہے’’ایام تشریق (11،12،13 ذوالحجہ سبھی) قربانی کے دن ہیں‘‘ اور حضرت علیؓ سے بھی مروی ہے’’قربانی کے دن یوم عیدالاضحی اور اس کے 3 دن بعد بھی ہیں‘‘اور بعض دیگر صحابہ کرامؓ  وتابعین اور ائمہ سے بھی یہی مروی ہے۔ بعض کے نزدیک قربانی کے دن صرف 3 ہی ہیں مگر یہ موقف مذکورہ حدیث کے خلاف ہے لیکن سوچا جائے تو یہ بھی کیا کم ہے کہ پہلے د ن نہیں تو دوسرے دن اور اگر دوسرے دن بھی نہیں تو تیسرے دن ہی سہی مگر قربانی ضرور کریں۔
 
 
 

شیئر: