Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آن لائن بزنس کی رجسٹریشن لازمی، کاروباری افراد کیسے متاثر ہوں گے؟

ٹیکس قوانین کے ماہر اور وکیل ایڈوکیٹ خرم ابراہیم بیگ کے مطابق آن لائن کاروبار کی رجسٹریشن اور ان پر ٹیکس عائد کرنا ایک خوش آئند قدم ہے۔ (فائل فوٹو: پکسابے)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے بجٹ 26-2025 میں آن لائن کاروبار کی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ساتھ رجسٹریشن کو بھی لازمی قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں بجٹ کے بعد ہونے والی میٹنگز میں یہ بات طے کی گئی ہے کہ جو افراد یا ادارے آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے بڑے پیمانے پر کاروبار کر رہے ہیں، وہ اپنا کاروبار ایف بی آر کے ساتھ رجسٹر کروائیں گے۔
اب تک سامنے آنے والی تجاویز کے مطابق ایسے آن لائن کاروبار جن کی سالانہ آمدنی دو کروڑ روپے یا اس سے زائد ہے، ان کے لیے ایف بی آر کے ساتھ رجسٹریشن لازمی ہو گی۔
تاہم چھوٹے اور کم آمدنی والے آن لائن کاروبار اور سٹارٹ اپس کو فی الحال رجسٹریشن سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ البتہ جب کوئی پلیٹ فارم یا کاروبار مخصوص آمدنی کی حد عبور کر لے گا تو اس کے لیے رجسٹریشن لازم ہو جائے گی۔
بجٹ کے بعد کی میٹنگز میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ آن لائن کاروبار کی رجسٹریشن ان کے کاروباری حجم کی بنیاد پر ہونی چاہیے، نہ کہ تمام آن لائن کاروباروں پر یکساں لاگو کی جائے۔
ایف بی آر نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ گھر بیٹھے کام کرنے والی خواتین اور محدود وسائل والے چھوٹے کاروبار اس مجوزہ رجسٹریشن سے مستثنیٰ ہوں گے۔
یہ تمام تجاویز مالیاتی بل 2025 کا حصہ بن چکی ہیں اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ انہیں حتمی منظوری کے لیے جلد پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
اردو نیوز نے آن لائن کاروبار کرنے والے شہریوں اور ڈیجیٹل معیشت کے ماہرین سے گفتگو کی ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ آن لائن بزنس کی رجسٹریشن ای کامرس پر کیا اثرات مرتب کرے گی؟

آن لائن کاروبار رجسٹر کیسے ہوں گے؟

آن لائن کاروبار کی رجسٹریشن کے لیے اس وقت آن لائن بزنس مالکان کو ایف بی آر کے آئرس (IRIS) پورٹل پر جا کر خود کو رجسٹر کرنا ہوتا ہے، جہاں وہ اپنا قومی شناختی کارڈ، موبائل نمبر، ای میل اور کاروبار کی تفصیل فراہم کر کے نیشنل ٹیکس نمبر (NTN) حاصل کرتے ہیں۔
اگر کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدن مقررہ حد سے زیادہ ہو تو سیلز ٹیکس رجسٹریشن بھی ضروری ہوتی ہے۔ رجسٹریشن نہ کروانے کی صورت میں نہ صرف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے بلکہ مختلف آن لائن پلیٹ فارمز جیسے دراز، فیس بک، یا یوٹیوب کے ذریعے کاروبار کرنے والے افراد پر جرمانے بھی عائد کیے جا سکتے ہیں۔ ایف بی آر ایسے میکانزم پر بھی غور کر رہا ہے جن سے چھوٹے کاروباری افراد کے لیے ٹیکس قوانین پر عمل درآمد مزید آسان بنایا جا سکے۔

آن لائن کاروبار کی رجسٹریشن کے لیے اس وقت آن لائن بزنس مالکان کو ایف بی آر کے آئرس پورٹل پر جا کر خود کو رجسٹر کرنا ہوتا ہے۔ (فوٹو: ایف بی آر)

اس کے علاوہ ایف بی آر کی جانب سے آن لائن رجسٹریشن کو آسان بنانے کے لیے ایک موبائل ایپ ’ٹیکس آسان‘ متعارف کروائی گئی ہے۔ اس ایپ کے ذریعے انفرادی سطح پر کام کرنے والے افراد، چھوٹے کاروباری مالکان، فری لانسرز، یوٹیوبرز، اور سوشل میڈیا کے ذریعے چیزیں فروخت کرنے والے صارفین باآسانی رجسٹریشن کا عمل مکمل کر سکتے ہیں۔ ایپ میں ایک سادہ سا فارم دیا گیا ہے، جس میں قومی شناختی کارڈ، موبائل نمبر، ای میل اور کاروبار سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کر کے نیشنل ٹیکس نمبر (NTN) حاصل کیا جا سکتا ہے۔

’پاکستان میں ٹیکس نظام سے جڑنا مشکل عمل ہے‘

اسلام آباد میں مقیم عبدالنافع چھوٹے پیمانے پر گارمنٹس کا کاروبار کرتے ہیں، جسے وہ کچھ عرصہ قبل آن لائن بھی لے آئے تھے۔ اب ان کی زیادہ تر توجہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر فروخت پر ہے۔ لیکن نئے بجٹ میں آن لائن کاروبار کی رجسٹریشن اور ممکنہ ٹیکس کے نفاذ کی تجاویز نے انہیں الجھن میں ڈال دیا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ آن لائن کاروبار اب شاید اتنا آسان نہ رہے، کیونکہ ایف بی آر کے ساتھ رجسٹریشن اور پھر ٹیکس نظام سے جڑنا پاکستان میں ہمیشہ سے ایک مشکل عمل رہا ہے۔ اس میں ہراسانی، غیرضروری پوچھ گچھ اور بار بار دفتر کے چکر جیسے مسائل پیش آتے ہیں۔ بعض اوقات تو اتنا ٹیکس مانگا جاتا ہے جتنی ہماری آمدن بھی نہیں ہوتی۔‘
تاہم عبدالنافع نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ حکومت اس عمل کو چھوٹے کاروباری افراد کے لیے آسان اور سہل بنانے کے اقدامات ضرور کرے گی تاکہ وہ خوف یا پیچیدگی کے بغیر اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں۔

ملک عدیل رحمان کے مطابق ’اس وقت غیرملکی آن لائن خرید و فروخت کے پلیٹ فارمز پاکستان میں سیلز ٹیکس کی رجسٹریشن کے بغیر کام کر رہے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: ایمیزون)

ڈیجیٹل مارکیٹ کو سمجھنے والے ملک عدیل رحمان کے خیال میں آن لائن کاروبار کی رجسٹریشن اور اُن پر ٹیکس کا نفاذ پاکستان کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت میں شفافیت اور مالی نظم و ضبط کی جانب ایک بروقت اور ضروری اقدام ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ایمیزون، ٹیمو، علی ایکسپریس اور دیگر غیرملکی آن لائن خرید و فروخت کے پلیٹ فارمز پاکستان میں سیلز ٹیکس کی رجسٹریشن کے بغیر کام کر رہے ہیں اور ملکی آمدنی میں براہِ راست حصہ نہیں ڈال رہے، جبکہ مقامی بڑے کاروباری اداروں کو مکمل ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ٹیکس میں فرق نہ صرف مقامی کاروباری افراد کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ بین الاقوامی پلیٹ فارمز کے لیے ایک غیراعلانیہ ’ٹیکس سے پاک علاقہ‘ بھی تشکیل دیتا ہے۔‘
ملک عدیل رحمان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ اقدام بروقت اور حکمتِ عملی سے بھرپور ہے۔ جیسے جیسے پاکستان ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے، ویسے ہی ٹیکس پالیسی کو بھی بدلتے ہوئے رجحانات سے ہم آہنگ ہونا ہو گا۔ غیرملکی ای کامرس پلیٹ فارمز کو جی ایس ٹی کے دائرہ کار میں لانا صرف محصولات کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ شفافیت، مساوات، اور ڈیجیٹل معیشت پر عوامی اعتماد کی بحالی کا بھی ایک اہم قدم ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ تجویز جدید معیشت سے مطابقت رکھنے والی ٹیکس اصلاحات کے ایک جامع اور منصفانہ نظام کی بنیاد بنے گی۔

’تمام آن لائن کاروبار پر ٹیکس نافذ ہونا چاہیے‘

ٹیکس قوانین کے ماہر اور وکیل ایڈوکیٹ خرم ابراہیم بیگ کے مطابق آن لائن کاروبار کی رجسٹریشن اور ان پر ٹیکس عائد کرنا ایک خوش آئند قدم ہے، جسے تسلسل کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔

چھوٹے اور کم آمدنی والے آن لائن کاروبار اور سٹارٹ اپس کو فی الحال رجسٹریشن سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

تاہم انہوں نے حکومت کی جانب سے چھوٹے اور بڑے کاروبار میں فرق کرنے کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق تمام آن لائن کاروبار پر ٹیکس نافذ ہونا چاہیے۔
’جب آپ کسی ایک فریق کو استثنیٰ دیتے ہیں تو باقی تمام لوگ بھی اسی دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ہر کوئی ٹیکس سے چھوٹ کا مطالبہ کرنے لگتا ہے۔‘
خرم ابراہیم کا مزید کہنا تھا کہ اگر تنخواہ دار طبقہ باقاعدگی سے ٹیکس دیتا ہے تو کاروباری طبقے کو بھی ٹیکس دینا چاہیے، اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔

 

شیئر: