Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں پابندی کے باوجود انڈین مصنوعات کی سمگلنگ کیسے ہوتی ہے؟

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں حالیہ دنوں میں کسٹمز کی کارروائی نے ایک بار پھر ملک میں انڈین مصنوعات کی سمگلنگ کے خطرناک رجحان کو بے نقاب کیا ہے۔
کلکٹریٹ آف کسٹمز انفورسمنٹ نے صدر کراچی کی سٹار سٹی موبائل مارکیٹ میں واقع ایک گودام پر خفیہ اطلاع کی بنیاد پر چھاپہ مارا۔ کارروائی کے دوران جدید آئی فونز، میک بکس، سمارٹ واچز، پینسلز، ایئر پوڈز اور ٹیبلٹس سمیت تین کروڑ روپے مالیت کی اشیا قبضے میں لی گئیں۔ ان میں خاص طور پر انڈین ساختہ مصنوعات کی نمایاں مقدار موجود تھی۔
حکومت پاکستان کی پالیسی کے تحت انڈین مصنوعات کی درآمد مکمل طور پر ممنوع ہے اور اس کی خلاف ورزی پر نہ صرف بھاری جرمانے بلکہ مقدمات بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔

انڈین مصنوعات پاکستان کیسے پہنچتی ہیں؟

اردو نیوز کو تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ انڈین اشیا کی سمگلنگ کے کئی راستے ہیں اور یہ سب ایک منظم نیٹ ورک کے تحت ہو رہا ہے۔
سینیئر کسٹمز افسران اور معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق انڈین الیکٹرانک مصنوعات اور دیگر اشیا عام طور پر افغانستان یا ایران سمیت دیگر ممالک کے راستے پاکستان میں داخل ہوتی ہیں۔ ان ممالک سے اشیا کو جعلی دستاویزات کے ساتھ پاکستان میں درآمد شدہ ظاہر کیا جاتا ہے یا پھر ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور سرحدوں سے انہیں کلیئر کرا لیا جاتا ہے۔
ایئر کارگو، کوریئر سروسز اور مسافروں کے ذاتی سامان کی آڑ میں بھی یہ اشیا چھوٹے پیمانے پر لائی جاتی ہیں، جبکہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت سامان جو افغانستان یا وسطی ایشیا کے لیے ہوتا ہے، اسے غیرقانونی طور پر پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں اتار لیا جاتا ہے۔
کسٹمز ذرائع کا کہنا ہے کہ ’بیرون ممالک سے آنے والے کئی کنسائنمنٹس میں الیکٹرانک اشیا کے ساتھ انڈین ساختہ سامان چھپا کر بھیجا جاتا ہے اور پاکستانی مارکیٹ میں زیادہ منافع پر فروخت کیا جاتا ہے۔‘

سمگل شدہ اشیا کا مارکیٹ پر اثر

معاشی ماہرین کے مطابق انڈین مصنوعات اور دیگر سمگل شدہ الیکٹرانکس کی کُھلی مارکیٹ میں دستیابی مقامی درآمد کنندگان اور صنعت کاروں کے لیے شدید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ قانونی طور پر درآمد شدہ اشیا پر بھاری ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کیے جاتے ہیں، جبکہ سمگل شدہ سامان ان سب ذمہ داریوں سے مبرا ہوتا ہے، جس کے باعث یہ مارکیٹ میں سستے داموں دستیاب ہوتا ہے اور قانونی کاروباری حضرات نقصان اٹھاتے ہیں۔

کسٹمز نے کارروائی کے دوران تین کروڑ روپے مالیت کی اشیا قبضے میں لیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

ایک ماہر معاشیات نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہر برس پاکستان کا اربوں روپے کا ریونیو صرف اس غیرقانونی تجارت کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے، جبکہ سمگلنگ کی آمدنی مختلف جرائم پیشہ سرگرمیوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔‘
کراچی موبائل اینڈ الیکٹرانک ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر منہاج گلفہام نے کہا کہ ایسوسی ایشن ایسے کسی بھی کاروبار کی حمایت نہیں کرتی جو ملک کے قانون یا معیشت کے خلاف ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انڈین مصنوعات کی درآمد پر پابندی کی مکمل پاسداری کی جائے گی اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا۔
تاہم منہاج گلفہام کا کہنا تھا کہ کسٹمز حکام کو چاہیے کہ وہ قانونی کاروبار کرنے والوں کو بلاوجہ تنگ نہ کریں اور کارروائیاں صرف ان کے خلاف کی جائیں جو حقیقتاً قانون شکنی میں ملوث ہوں۔

ماضی کی کارروائیاں

یہ پہلا موقع نہیں کہ سٹار سٹی مال یا کراچی کی دیگر مارکیٹوں میں ایسی کارروائیاں کی گئی ہوں۔ فروری 2025 میں بھی اسی مال پر پڑنے والے چھاپے میں لاکھوں روپے مالیت کے موبائل فونز، ٹیبلٹس، آئی پیڈز اور ممنوعہ انڈین گٹکا برآمد کیا گیا تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اتنی کارروائیوں کے باوجود یہ غیرقانونی کاروبار کیوں ختم نہیں ہو رہا؟

ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت سامان جو افغانستان یا وسطی ایشیا کے لیے ہوتا ہے، اسے غیرقانونی طور پر پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں اتار لیا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اصل میں سمگلنگ نیٹ ورکس کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ محض چھاپوں یا جرمانوں سے یہ سلسلہ رک نہیں پاتا۔ یہ نیٹ ورکس بعض بدعنوان عناصر، اثر و رسوخ رکھنے والے تاجروں اور سرحدی علاقوں میں موجود مقامی گروہوں کی ملی بھگت سے کام کرتے ہیں۔‘
کسٹمز حکام کا کہنا ہے کہ اب کارروائیوں کا دائرہ کار مزید وسیع کیا جا رہا ہے اور سمگلنگ میں ملوث بڑے ملزموں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے انٹیلیجنس نیٹ ورک کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔
حکام نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ غیرقانونی سامان خریدنے سے گریز کریں کیونکہ ایسا کرنا نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ملک کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔

 

شیئر: