Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کویت کی آئس ویمنز جو بین الاقوامی آئس ہاکی کھیلنے کیلئے تیار

کویت سٹی:کویت کی خواتین آئس ہاکی ٹیم ریگستان میں سرخ، سفید اور نیلی جرسی میں رواں ماہ کے آخر میں ہونے والے عالمی ٹورنامنٹ کے اپنے پہلے مقابلے کیلئے سخت ٹریننگ کر رہی ہے۔مقامی میڈیا نے ان خواتین کو 'آئس ویمنز' کا لقب دیا ہے۔ حجاب کے ساتھ کھیلنے والی ہاکی ٹیم کی یہ لڑکیاں کویت کے دارالحکومت میں اکتوبر کی 40 سینٹی گریڈ گرمی میں جلدی جلدی اپنے بالوں کو باندھ کر ہیلمٹ پہن کر رنک (آئس ہاکی کا میدان) میں اترتی ہیں۔ٹیم کی ایک کھلاڑی بحرالحربان کہتی ہیںکویت یا خلیجی ممالک میں لڑکیوں کا اس قسم کا محنت والا کھیل کھیلنا بالکل نئی بات ہے لیکن یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کھیل کے معاملے میں لڑکے اور لڑکیوں میں واقعتاً کوئی فرق نہیں ہے۔خلیجی ممالک میں برف پر اپنے کھیل کا مظاہرہ کرنے والی خواتین رواں سال سرخیوں میں رہی ہیں۔ بطور خاص متحدہ عرب امارات کی شہری زہرہ لاری سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوئیں۔ مشرق وسطیٰ میں معروف اسپورٹس کمپنی کی مہم کے ذریعے وہ متحدہ عرب امارات کی پہلی خاتون سکیٹر اورحجاب میں کھیلنے والی پہلی بین الاقوامی شخصیت کے طور پر ابھری ہیں۔ کویت کی خواتین ہاکی ٹیم اپنا پہلا بین الاقوامی میچ 30 اکتوبر کو بینکاک میں ہونے والے آئس ہاکی ورلڈ چیمپیئن شپ میں کھیلے گی۔کویت کی 56 خواتین کو قومی آئس ہاکی ٹیم کی جرسی دی گئی ہے۔ ان کی عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان ہیں اور ان میں سے بعض تو مائیں ہیں اور وہ ٹریننگ کے دوران اپنے بچوں کو لے کر آتی ہیں۔ ان ایتھلیٹس کو ٹیم کی ساتھیوں اور اپنی برادریوں کی حمایت اور تعاون حاصل ہے لیکن ان کے پاس ٹریننگ کے لیے اپنی جگہ کی کمی ہے۔ایک کھلاڑی کا کہنا ہے کہ اس کھیل کی جرسی پوری طرح سے جسم کو ڈھک لیتی ہے ایک طرح سے یہ اپنے آپ میں حجاب ہے۔انھوں نے فی الحال سرکاری سکی رنک کو کرائے پر لیا ہوا ہے۔کویت کی خواتین اسپورٹس اتھارٹی کی صدر شیخہ نعیمہ الصباح نے کہا کہ ہمیں خواتین کے لیے مختص سہولیات کی ضرورت ہے تاکہ اہل خانہ کو یہ باور کرایا جا سکے کہ ان کی بچیوں کو کھیلنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے بتایاکہ ہمیں ابتدا ءمیں قدرے مزاحمت کا سامنا رہا لیکن خواتین میں کھیل میں شامل ہونے کے رجحان میں اب اضافہ ہو رہا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ہم ایشیائی ٹورنامنٹ میں مستقل شامل نہیں ہوتیں لیکن ہم دھیرے دھیرے ترقی کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں لڑکیوں کی جلد شادی ہو جاتی ہے یا پھر وہ ایک ایسی دنیا میں حجاب میں رہنا پسند کرتی ہیں جہاں بعض کھیل میں آپ حجاب نہیں پہن سکتے لیکن بڑی بڑی جرسی، شن گارڈز اور ہیلمٹ کی وجہ سے ہاکی کویت کی قومی ٹیم کے لیے مناسب کھیل ہے۔ٹیم کی ایک کھلاڑی خالدہ عبدالکریم نے اپنی جرسی کو حجاب کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جرسی تقریباً تمام جسم کو ڈھک لیتی ہے۔ اس لیے مجھے تو اس میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔شیخہ نعیمہ نے لڑکیوں کے لئے بہترین اور پیشہ ورانہ کوچز کی بات کہی انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹیم کو کویت کی حکومت اور عوام دونوں سے زبردست حمایت مل رہی ہے۔ 

شیئر: