Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوم تشکر

محمد مبشر انوار
الحمد للہ، ثم الحمد للہ،اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ہر حال میں اس کے بندوں پر لازم ہے کہ یہی اس کا حکم ہے اور اسی میں اس کی حکمت و بصیرت پوشیدہ ہے ،یہ الگ بات ہے کہ انسان  فطری طورپر جلد باز ہے اور بالعموم تھوڑی اور چھوٹی چھوٹی مشکلات پر دہائیاں دینے لگتا ہے۔  دوسری طرف اللہ کریم کا حکم ہے کہ انسان صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے  تو بدلے میں اس کے لئے راحتیں اور آسانیاں ہیں جن کا شمار انسان کر ہی نہیں سکتا اور اسی کا اظہار اللہ نے اپنی کتاب میں کرتے ہوئے فرمایا ہے ’’اور تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘۔ مملکت خداد ادپاکستان جتنی قربانیوں اور مشکلات کے بعد حاصل ہوئی ،اس کی مثال روئے زمین پر نہیں ملتی اور مسلمانان برصغیر کا یہ حق تھا کہ اس نئی مملکت میں نہ صرف انہیں راحتیں اور آسانیاں ملتیں بلکہ  وہ اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے دنیا بھر میں ایک مثالی مملکت کے طورپر ابھرتے۔ بد قسمتی سے بابائے قوم کی جلد رحلت اور نواب لیاقت علی خان کے بہیمانہ قتل کے بعداقتدار کی غلام گردشوں میں طاقت کا جو کھیل شروع ہوا،اس نے اس ملک کی سمت کو نہ صرف کھوٹا کیا بلکہ  درد دل رکھنے والوں کو بھی بزور قومی دھارے سے نکال باہر کیا۔منزل انہیں ملی جو شریک سفر ہی نہ تھے اور وہ جنہوں نے اس ملک کی ترقی و خوشخالی کے خواب دیکھے تھے،وقت کی گرد اور نا آسودہ خوابوں کے ساتھ زمین کی تہوں میں جا سوئے۔ابن الوقتوں اور موقع پرستوں نے اس ملک کے بنیادی ڈھانچے میں ایسی ایسی نقب لگائی کہ آج پاکستان کی عمارت شدید خطرات کا شکار ہو چکی ہے۔ مزید حیرت اس امر پر ہوتی ہے کہ چور مچائے شور کے عین مطابق ،ہر مشکل گھڑی میں انتہائی معصومانہ انداز میں یہ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان کے ادارے مفلوج ہو چکے ہیں اور کام کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے،کیا چانکیائی  انداز ہے کہ  اس ملک کے  تمام وسائل پر قابض رہنے والے،اس کے اداروں کو کھوکھلا کرنے والے ان کے کھوکھلاہونے کی دہائی دے رہے ہیںیا  دوسرے الفاظ میں اپنی نااہلی تسلیم کر رہے ہیں؟جبکہ  دوسری طرف حقائق ہیں کہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے اداروں کو  ملیامیٹ کرنے والے ہی ان اداروں کے پرسان حال بننے کی کوشش کر رہے ہیں ،کون ہے جو نہ  مرجائے اس سادگی پہ اے خدا؟سویلین اداروں کی کارکردگی کو  ہمیشہ زیر بحث لانے والے، اتنی دہائیاں دینے کے باوجود ،کس قسم کی  قانون سازی میں مشغول ہیں،یہ بھی کسی سے  ڈھکا چھپا نہیں کہ آج بھی  درون خانہ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ  عدالت عظمیٰ کے اختیارات پر قدغنیں لگائی جائیں ، مقصد صرف  اور صرف اپنی لوٹ مار کو  تحفظ دینا، علاوہ ازیں ملک کے ایک اعلیٰ ترین ادارے نے جب قانون کے عین مطابق ’’نا اہل‘‘ قرار  دے دیا تو پھر ایسا قانون پاس کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ  سیاسی جماعتیں کسی نا اہل شخص کو  جماعت کا  صدر بنا سکتی ہیں؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عدالتوں میں  موجودگی پر تلملا رہے ہیں کہ  ان کی موجودگی میں ان کے مذموم عزائم کی تکمیل ممکن نہیں ہورہی تھی لہذا ایک پیشی پر جو سلوک پولیس اہلکار کے ساتھ کیا گیا وہ ساری دنیا کی  جگ ہنسائی کا باعث بنا تو دوسری طرف حکومتی وزراء ، ریاست کی طرف سے  نامزد ملزمان کی حمایت میں  ان عدالتوں میں بنفس نفیس موجود ہ، ہمارے  حکمرانوں کے کس قدر باعث  شرم دہرے معیار ہیں ،سوچ کرگھن آتی ہے مگر ان حکمرانوں کو  رتی برابر احساس نہیں ہوتا۔اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے متوالے اس کیس پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں  اور ہر قسم کی خبر کو  نہ  صرف ذرائع ابلاغ بلکہ  سوشل میڈیا پر وائرل کر کے اپنی ’’مظلومیت‘‘ ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ  وہ اپنی بے گناہی کو  متعلقہ فورم پر تمام  تر  دستاویزی  ثبوتوں کے  ساتھ قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، کسی بھی شک  و شبہ سے بالاثابت کریں مگر حقائق کو  توڑ مروڑ کر کسی بھی ادارے کو  دباؤ میں لانے کی حکمت عملی اس صورت  میں صرف اور صرف نقصان دہ ثابت ہو گی اور مسائل میں  مزید اضافے کا سبب ہی بنے گی۔ لاہور ہائیکورٹ کے معزز جج جناب جسٹس شاہد کریم نے پانامہ میں  ملوث دیگر افراد کے حوالے سے  دائر درخواست  نا قابل سماعت کہہ کر خارج کی ہے ،جس کو مسلم لیگ ن کے  زعماء ، نجی ٹی وی کے ایک پروگرام کے حوالے سے دئیے گئے  خیالات پر  تعصب اور دیا گیا  ٹارگٹ پورا ہونے سے تشبیہ دے کر  ہمدردیاں سمیٹنے کی  کوششوں میں مصروف ہیں۔ درحقیقت یہ بھی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ اداروں پر اتنی تنقید کی جائے کہ  وہ دباؤ محسوس کرتے ہوئے ،میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو   رعایت دینے پر مجبور ہو جائیں بصورت دیگر عوام الناس میں  یہ دہائی دی جائے کہ احتساب کی جگہ  انتقام لیا گیا ہے  اور میاں نواز شریف کو مقتدرہ حلقوں کی بات نہ ماننے کی  سزا دی گئی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کی  دو ممکنہ  وجوہ ہو سکتی ہیں،ایک یہ کہ واقعتا کوئی تعصب والی بات ہو(جو ہضم اس لئے نہیں ہوتی کہ  معزز جج جناب  شاہد کریم اس سے قبل محترمہ کلثوم نواز کو  الیکشن لڑنے کے لئے اہل قرار دے چکے ہیں) دوسری وجہ اس فیصلے کی یہ  ہو سکتی ہے کہ پانامہ میں ملوث  باقیماندہ افراد کا مقدمہ بھی  میاں نواز شریف کے مقدمے کے ساتھ سنا جائے۔ اس صورت میں یہ فیصلہ  نہ صرف یہ کہ انتہائی مناسب ہے بلکہ ملک میں جاری احتساب کی  راہ ہموار کرنے میں بھی مددگار ہو گا کیونکہ اس  وقت پاکستان میں ایسے  بے شمار افراد موجود ہیں ،جو منی لانڈرنگ ،کرپشن اور    دیگر جرائم میں ملوث ہیں،ان سب کے مقدمات کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کا  مقصد ،ماسوائے تاخیر کے اور کچھ نہیں ہو گا اور اس وقت  جس طرح  عدالت عظمیٰ کام کررہی ہے،اس سے  ان مقدمات کانتیجہ خیز ہونا یقینی ہے۔  اس پس منظر میں مسلم لیگ ن کی حکمت عملی یقینی  طور پر درست ہے مگر  عدالتیں اس قسم کے تاخیری حربوں میں الجھے بغیر ملک کے سب سے بڑے مقدمے میں  سرخرو ہونے کی خاطر اس تنقید کو  بڑے حوصلے  اور ہمت سے برداشت کر رہی ہیں۔ مبادا ان کا غلط قدم ،ان کی ساکھ کو خراب نہ کردے۔ اداروں کی دہائی دینے  والوں کو ایسی دشنام طرازی سے گریز کرنا چاہئے اور اداروں پر اعتماد کرتے ہوئے  نہ  صرف اداروں کی کارروائی بلکہ ان کے  فیصلوں کو بھی تسلیم کرنا چاہئے جس کاا ظہار نہ صرف  میاں شہباز شریف بلکہ چوہدری نثار بھی کر چکے ہیں ،یہاں  میاں شہباز شریف کے  حوالے سے اٹھنے والے اس تاثر کی بیخ کنی  ہونی چاہئے کہ اندرون خانہ کوئی این آر او ہو چکا ہے،جس کی وجہ سے ابھی تک نیب کی جانب سے  حدیبیہ کیس کی  اپیل عدالت عظمیٰ میں داخل نہیں کی گئی۔ نیب کی جانب سے اس قسم کی  تاخیر، اس تاثر کو  مزید تقویت دیتی ہے   اور اداروں کی غیر جانبداری پر ایک  سوالیہ نشان بن رہی ہے۔ عوام واضح طور پر اداروں سے  توقع کرتے ہیں کہ احتساب کا  جو عمل شروع ہوا ہے   وہ بلا امتیاز ہر اس  مجرم (شریف خاندان،زرداری خاندان،عمران خان یا تحریک انصاف کے اکابرین)کو  قرار واقعی  سزا دے  جو  حقیقتاً اس ملک کے  وسائل کو لوٹنے میں ملوث ہے۔ 
19اکتوبر 2017ء  اس حوالے سے ایک یادگار دن ہے ،جب  احتساب عدالت نے میاں نواز شریف  اور ان کے اہل خانہ کے تمام تر تاخیری حربوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے عین قانونی طور پر فرداً فرداً ’’حاضر ملزمان‘‘ پر  فرد جرم عائد کر دی۔   علاوہ ازیں ،  میاں نواز شریف کی غیر حاضری میں  ہی ان پر فرد جرم عائد کر کے  قانون کی بالادستی کا اظہار کر دیاہے۔     اقتدار سے محروم دوسرے مغروروں کے خلاف کارروائی سے قبل ’’بااختیار ملزمان‘‘ کو  قرار واقعی  سزا دینے سے کئی چھوٹی مچھلیاں از خود  تائب ہو سکتی ہیں۔ طاقتوروں کے  خلاف قانون کو متحرک دیکھ کر یوم تشکر کیوں نہ منایا جائے کہ آس ،امید کی شمعیں پھر سے روشن ہو رہی ہیں۔
 
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں