Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صفر میں شادی بیاہ ، دل میں کھٹکا کیوں؟

مولانا محمد عابد ندوی۔جدہ
شریعت  میں اس نکاح کو پسند کیا گیا ہے جو نہایت سادگی سے انجام دیا جائے۔ انعقادِ نکاح کیلئے کسی وقت  اور جگہ کی قید نہیں۔بعض اہل علم نے جمعہ کے دن اور مسجد میں نکاح کو بہتر اور مستحب قرار دیا ہے۔ مسجد میں نکاح کی ترغیب ایک ضعیف حدیث میں بھی وارد ہے(ترمذی) مسجد اللہ کا گھر اور بابرکت جگہ ہے ۔ مسجد میں نکاح کے ذریعے بہت ساری رسوم سے بچاجاسکتا ہے تاہم جمعہ کے دن اور مسجد میں نکاح بہرحال ضروری نہیں۔ فریقین کی سہولت  سے کسی بھی دن اور کسی بھی جگہ نکاح ہوسکتا ہے البتہ  حالت احرام میںانعقادِ نکاح  کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے جس کی تفصیل کا  یہ موقع نہیں۔بعض اہل علم 6شوال میں نکاح کو مستحب قرار دیتے ہیں تاہم نکاح کی عمر ہوجانے اور نکاح کیلئے مناسب رشتہ مل جانے کے بعد اس میں تاخیر  پسندیدہ نہیں۔ نکاح   میں غیر ضروری تاخیر معاشرہ میں فتنہ و فساد  او ربگاڑ کا ذریعہ ہے۔  ایک حدیث میں نبی کریم نے صحابہ کرامؓ  کو مخاطب کرکے فرمایا " جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین و اخلاق  سے تم راضی ہو تو اس سے (اپنی بیٹی، بہن  وغیرہ کا)  نکاح کردو۔ اگر تم ایسا  نہ کرو گے تو زمین میںبڑا فساد پھیل   جائیگا" (ترمذی ) اس حدیث مبارکہ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مناسب رشتہ ملنے کے بعد اسے ٹھکرانا اور نکاح میں غیر ضروری تاخیر کرنا پسندیدہ نہیں۔
سال کے 12 مہینوںاور دنوں میں کوئی مہینہ یا دن ایسا نہیں جس میں نکاح کی تقریب مکروہ اور ناپسندیدہ ہو یا اس میں نکاح منحوس اور ناکام  ازدواجی زندگی  کا پیش خیمہ ہو۔ نیک فالی یعنی کسی سے اچھا گمان کرنے اور نیک فال لینے کی تو گنجائش ہے لیکن شرعا ًبدفالی و بدشگونی جائز نہیں۔ یہ چیز اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں عام تھی۔ غیر مسلم معاشرہ میں آج بھی بدفالی و بدشگونی اور نحوست کا تصور عام ہے اور بدقسمتی سے مسلم معاشرہ بھی اس سے پاک نہیں۔ آج  بھی بے شمار  جاہل لوگ صفر کے مہینے کو  منحوس سمجھتے اور اس میں شادی بیاہ  جیسی مسنون تقریب سے گریز کرتے ہیں جو کسی طرح درست نہیں۔  اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے لیکن اسلام  نے اس تصور کو باطل قرار  دیا  اور سول اللہ  نے سختی سے اسکی تردید فرمائی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  روایت کرتے ہیں کہ  ایک مرتبہ نبی کریم نے ا رشاد فرمایا "کوئی چیز متعدی نہیں" ایک دیہاتی نے سوال کیا یا رسول اللہ! () جب کسی اونٹ کو خارش لگتی ہے تو وہ سب  اونٹوں کو خارش زدہ کردیتا ہے۔  رسول اللہنے جواباً ارشاد فرمایا "پھر  پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ کیا؟ کوئی بیماری متعدی نہیں (اور وہ کسی کو اس وقت تک نہیں لگتی جب تک اللہ نہ چاہے) پرندوں سے فال لینے، اسی طرح الو اور ماہ صفر کی نحوست کی کوئی حیثیت نہیں، اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا اور اسکی زندگی ، اس کے مصائب اور اسکی روزی لکھ دی"(ترمذی/ ابوداؤد)
اس حدیث میں رسول کریم  نے زمانہ ٔجاہلیت میں پائے جانے والے بعض غلط عقائد اور خیالات  کی تردید کی ہے کہ  یہ صحیح نہیں اور اسلامی  عقائد کے بالکل  خلاف ہیں۔ ان میں ایک یہ  ہے کہ کوئی بیماری بذات خود متعدی اور مؤثر نہیں کہ وہ کسی پر اثرانداز  ہوسکے۔ جو بھی ہوتا ہے اللہ کے فیصلہ اور تقدیر کے مطابق  اسکی مشیت سے ہوتا ہے۔ ہاں یہ چیز سبب بن سکتی ہے اور اسباب کا  پیدا  کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے نہ کہ کوئی اور، پھر  بندوں کو اس بات کا حکم دیاگیا اور وہ اس کے مامور ہیں کہ برائی، ہلاکت اور  بیماری کے اسباب سے دور رہیں چنانچہ اسی بنا پر  طاعون زدہ شہر میں داخل ہونے اور جذامی شخص کے قریب ہونے سے روکا گیا۔ ایک حدیث مبارکہ میں آپ کا  یہ ارشاد ہمیں ملتا ہے کہ " جذامی سے ایسے بھاگو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو" اس سلسلے میں منع کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص طاعون زدہ شہر میں داخل ہو  یا جذامی  کے قریب جائے  پھر اللہ کی مشیت اور اس کے فیصلے سے وہ بیمار ہوجائے یا ہلاک ہوجائے تو اس شخص کے یا دوسرے کسی کے عقیدہ میں یہ فتور آسکتا ہے کہ اگر یہ شخص  فلاں شہر نہ جاتا یا فلاں بیمار کے قریب نہ جاتا تو  وہ بیمار ہوتا اور نہ ہلاک ہوتا۔ ظاہر ہے یہ تصور اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ موت کا ایک وقت معین ہے جو نہ ایک لمحہ  پہلے آسکتی ہے اور   نہ ایک لمحہ بعد۔  اسی طرح  بیماری اور مصیبت کا دینے والا بھی  اللہ ہی  ہے، جب تک اللہ کا فیصلہ نہ ہو کوئی شخص بیماری اور مصیبت میں گرفتار نہیں ہوسکتا۔ ہاں اس بیماری یا مصیبت میں خود انسان کے اپنے اعمال، گناہ اور دوسری بہت ساری چیزیں سبب بن سکتی ہیں۔  انسان چونکہ کمزور واقع  ہوا ہے اسلئے ایسے اسباب کو اختیار کرنے سے خصوصیت کے ساتھ روکا گیا  جو اس کے عقیدہ کے بگاڑ کا بھی سبب  بنیں۔
زمانۂ جاہلیت میں کفار مکہ بعض پرندوں سے فال لیتے تھے اور ماہ صفر کو نحوست والا مہینہ سمجھتے تھے۔ حدیث مذکور میں رسول اللہ نے اسکی تردید فرمائی کہ یہ بات صحیح نہیں۔ کسی وقت اور زمانہ کو برا سمجھنا اور  اسے منحوس جاننا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ آج بھی بہت سارے لوگ ماہ صفر کو منحوس جان کر اس  میں شادی بیاہ یا کسی خوشی کی تقریب سے گریز کرتے ہیں۔ اسی طرح ماہ محرم کو واقعۂ کربلا اور شہادت حسینؓ کے  پس منظر میں غم اور سوگ کا مہینہ تصور کرتے ہیں چنانچہ  اس مہینہ میں بھی اور خاص طور پر عاشورہ  ٔ محرم کو شادی بیاہ کی تقریب اور محفل نکاح سجانا برا مانتے ہیں جبکہ  شرعاً اسکی کوئی  حیثیت نہیں اور سوگ کا ایسا کوئی تصور نہیں۔ شریعت میں کسی کے انتقال پر  سوگ کی مدت صرف 3 دن ہے سوائے بیوہ کے کہ شوہر کے انتقال پر اس کیلئے سوگ کی مدت  4 ماہ 10 دن ہے(یا اگر وہ حاملہ ہو توو ضع  حمل تک) 
محرم میں سوگ کے طور پر   یا ماہ صفر کو منحوس جان کر ان مہینوں میں نکاح سے گریز کرنا، ایسے نکاح سے بدفالی لینا اور اسے مستقبل میں ناکامی یا ناخوشگوار حالات سے دوچار ہونے والا خیال کرنا ، اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ اس بدعقیدگی سے اپنے ذہن و دماغ کو پاک رکھنا ازحد ضروری ہے۔
عربوں میں نحوست کے تصور کے باوجود  ماہ صفر میںنکاح کے حوالے سے کوئی بات نظر  سے نہیں گزری البتہ ایک روایت  سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماہ شوال میں نکاح کو پسند نہیں کیا جاتاتھا اور اس لفظ کے  لغوی معنیٰ کے لحاظ سے بدفالی لی جاتی تھی (اس  کے معنی  ٹوٹ پھوٹ اور لڑائی کیلئے ہتھیار اٹھانے کا مفہوم شامل ہے) اس خیال کی تردید میں ام  المومنین حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں " رسول  اللہ نے مجھ سے شوال میں شادی فرمائی، میری رخصتی بھی شوال میں ہوئی  پھر رسول اللہ  کی بیویوں میں  مجھ سے زیادہ خوش قسمت کون تھی؟" (مسلم)  امام نوویؒ  اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اہل عرب شوال میں نکاح کرنے کو یا شوال میں رخصتی کراکر دلہن گھر لانے کو  برا  سمجھتے تھے اور بدفالی لیتے تھے ۔ حضرت عائشہؓ  کا مقصد اسی غلط خیال کی تردید ہے کہ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ خوش  نصیب  میں کیونکر ہوتی؟ رسول اللہ  کی حضرت عائشہؓ سے بے پناہ محبت اسی طرح ان کی دیگر ازواج پر فضیلت بالکل واضح اور ثابت شدہ حقیقت ہے۔ کیا اس کے بعد بھی ماہ شوال میں شادی منحوس ہوسکتی ہے؟  اس روایت میں صراحت ہے کہ  حضرت عائشہ ؓ  اپنے خاندان کی عورتوں کیلئے ماہ  شوال میں شادی پسند کرتی تھیں اور اسی روایت کی بناء پر بعض اہل علم ماہ شوال میں شادی کو بہتر اور مستحب سمجھتے ہیں۔
الغرض ماہ صفر کو منحوس سمجھنا  یا ماہ  محرم کو سوگ کا مہینہ خیال کرنا اور ان میں شادی بیاہ کو برا  جاننا، اس سے بدشگونی لینا کسی طرح جائز نہیں بلکہ ابوداؤد کی ایک حدیث مبارکہ میں بدشگونی کو " شرک" تک کہا گیا  ’’ جس شخص کو بدفالی ، اپنی حاجت سے (روک دے اور )واپس لوٹا دے اس نے شرک کیا اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ آدمی یوں کہے: (یعنی  ایسے موقع پر جب کوئی شخص ناپسندیدہ چیز  دیکھے یا بدفالی و بدشگونی  کا  خیال پیدا ہو تو یہ دعا پڑھے) 
’’اللہم لا طیرالا طیرک ولا خیر الا خیرک ولا الہ غیرک‘‘(ابوداؤد)
" اے اللہ!  کوئی شگون نہیں مگر  تیرے ہی سے اور کوئی بھلائی نہیں مگر تیری ہی  بھلائی سے اور  تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘‘ 
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے ہر فرد کے عقیدہ و عمل کی اصلاح فرمائے اور رسول اللہ  کی سنتوں  پر چلنے   والا بنائے،آمین۔
 
 

شیئر: