Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خطرے کی گھنٹی بجنے لگی

پاکستانی معاشرے کی دھلائی ، صفائی ستھرائی ضروری ہے،اس سے چشم پوشی کیونکر ممکن ہے، رونا،دھونا کیوں؟
صلاح الدین حیدر
چند ہی روز پہلے میں نے افواہوں اور سرگوشیوں کا ذکر کیا تھا۔ یہ بات بھی عوام النّاس کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ملک میں جمہوریت کی بساط پلٹی جانے والی ہے۔ آج میں یہ چند سطور لکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ اب تو خطرے کی گھنٹی زور شور سے بجنے لگی ہے۔ حکمراں پارٹی کے صفِ اوّل کے رہنما خواجہ سعد رفیق (جو وزیر ریلوے بھی ہیں) نے تو بآواز بلند اس کی نشان دہی کردی۔ اپنے ایک بیان (جو پورے ملک میں نشر کیا گیا) میں اُنہوں نے صاف طور سے کہہ ڈالا کہ جمہوریت کو خطرہ ہے۔ وجہ اُس کی صاف ہے۔ ملک میں عام انتخابات اگست 2018 کو ہوں گے۔ چیف الیکشن کمشنر نے وارننگ جاری کردی ہے کہ اگر 10 نومبر تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی ازسرنو حدبندی نہ کی گئی تو انتخابات وقت پر کرانا ناممکن ہوجائے گا۔ معاملہ سادہ اور گہرا دونوں ہی ہے۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے نہ جانے کس حیثیت میں کئی ایک سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو اپنے دفتر میں طلب کرکے قومی اسمبلی کی نشستوں کے بارے میں فیصلے کروالیے، لیکن یہ بھول گئے کہ مردم شماری کے بغیر نشستوں کی حد بندی کیسے ممکن ہے۔ سینسس کمیشن جس کا کام مردم شماری ہے اور جو 20 سال کے بعد ہوئی، اُس پر بہت سے اعتراضات اُٹھے۔سندھ سے تو خاص طور پر حکمراں پیپلز پارٹی اور حزب مخالف متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) نے سرے سے نتائج ماننے سے ہی انکار کردیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے قائد ڈاکٹر فاروق ستار نے تو واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ ہمیں مردم شماری کے نتائج قبول نہیں، اسے دوبارہ کرایا جائے۔ صوبے کے وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں مردم شماری نتائج کو رد کردیا کہ ہمیں یہ منظور نہیں، سینسس غلط اور بدنیتی پر مبنی ہے۔سندھ کی آبادی بہت زیادہ گھٹا کر دِکھائی گئی ہے۔ کہنے کو تو پنجاب کی صرف 9 نشستیں کم ہوئی ہیں اور خیبرپختونخوا کی 3 قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کا اضافہ ہوگیا ہے، بنیاد کیا ہے؟ اس کی تفصیل کا کسی کو علم نہیں۔ یہ کیسی پردہ داری ہے۔ کچھ تو وضاحت کی جائے۔عوام کو حقائق معلوم کرنے کا حق حاصل ہے۔ چیخ و پکار کب تک چلے گی، لیکن وزارت داخلہ اور سینسس کمیشن نے نہ جانے کیوں خاموشی اختیار کر رکھی ہے، کس کے اشارے پر مردم شماری کی گئی؟ 
کراچی کا شمار دُنیا کے 10بڑے شہروں میں ہوتا ہے، اُس کی آبادی کا اندازہ 2 کروڑ سے اوپر ہے، لیکن سینسس میں اس کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ دِکھائی گئی، گو قومی اسمبلی کی 20 نشستیں اُس کی اپنی جگہ برقرار ہیں۔
ایسے حالات میں قومی اسمبلی کس قانون کے تحت اجلاس بلاکر فیصلے کرنے لگی۔ اُنہیں یہ اختیار کس نے دیا۔ ابھی یہ بحث جاری ہی ہے کہ اچانک خواجہ سعد رفیق کا بیان کہ جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے، ایٹم بم کی طرح عوام پر گِرا۔ سب ششدر رہ گئے اور پھر سینیٹ کے چیئرمین نے تو ایوان میںاور ایوان کے باہر کئی ایک بیانات دے ڈالے کہ جمہوریت اور آئین کے خلاف کوئی بات تسلیم نہیں کی جائیگی۔ خود نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی بھی غیر مبہم الفاظ میں ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت کی مخالفت کرچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی ایسا اعلان نظر سے گزرا ہے۔ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی اس کی مخالفت کی، لیکن ساتھ ہی خبردار بھی کردیا کہ اگر نواز شریف اداروں سے ٹکرائو کی پالیسیوں پر گامزن رہیں تو جمہوریت کو خطرات لامحالہ لاحق ہوجائیں گے۔
بات اب افواہوں تک محدود نہیں رہی۔ساری بڑی سیاسی جماعتیں اس پر اپنا موقف جاری کرچکی ہیں لیکن دوسری طرف نواز شریف، مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر لندن سے واپسی پر احتساب عدالت کے سامنے حاضر تو ہوئے مگر چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے ڈالا تھا، کہ 3 مختلف چارج شیٹ، جس میں اُن کی جائیداد کے بارے میں سوالات اُٹھائے گئے تھے، ایک ساتھ ہی سننے کا آرڈر پاس کردیا۔ ظاہر ہے احتساب عدالت نے گواہوں اور دوسرے لوگوں کو طلب کرنے کے بجائے، کارروائی 7 نومبر تک روک دی، کہ جب تک جج صاحب خود اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا تفصیلی جائزہ نہ لے لیں، کوئی کیس نہیں سن سکتے۔ بات اصولی ہے۔ ایک اعلیٰ عدالت کے آگے احتساب عدالت کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے، تو فیصلے کے مطابق ہی عمل کرنا پڑے گا۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا، لیکن عدالت سے باہر آتے ہی نواز شریف نے پھر وہی راگ الاپنا شروع کردیا کہ احتساب نہیں انتقامی کارروائی ہورہی ہے۔ صرف اُن پر ہی کیوں فردِ جرم عائد کی جارہی ہے، سب کا احتساب کیا جائے۔ تو عرض صرف اتنی ہے کہ میاں صاحب، عدالت اور جج بھی اپنی ذمے داریوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ کیسے آئین اور قانون کے خلاف جاسکتے ہیں، لیکن پہلے ایک کیس سے تو نمٹ لیں جو اَب اپنے آخری مراحل میں ہے تو پھر دوسروں کی طرف بھی متوجہ ہوں گے، ایسا تو ہونا ہی ہے۔ احتساب کا عمل جب ایک بار شروع ہوجائے تو پھر رُکنے کا نام نہیں لیتا۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہونے والا ہے۔
کچھ تعجب نہیں ہوگا کہ نواز شریف کے کیس سے فارغ ہوکرجج صاحبان جن میں عدالت عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ کے ارکان بھی شامل ہیں، دوسروں کی گرفت کریں۔ کیا یہ گرفت آصف زرداری، فریال تالپور یا پارلیمان کے کئی ایک ارکان کی بھی ہوگی؟ فی الوقت کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن مفر بھی نہیں۔ ایسا تو کرنا ہی پڑے گا، ورنہ فائدہ کچھ بھی نہیں ہوگا، بدعنوانیاں اپنی جگہ پر قائم رہیں گی۔ وہی تباہی و بربادی، وہی لوٹ مار جو پاکستانیوں کے رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے۔ ہر جگہ جائز کام کیلئے بھی اب قائداعظم کی تصویر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایسے معاشرے میں اگر چھوٹ دیدی جائے تو یہ تمام کوششیں اور خواہشیں جو پانامہ لیکس سے شروع ہوئی تھیں، محض کھیل تماشا بن کر رہ جائیں گی۔ عمران خان کو یہ کریڈٹ تو جاتا ہے کہ اُنہوں نے تن تنہا اپنے مشن کی تکمیل کی، نواز شریف کو منصب سے ہٹا کر دم لیا، لیکن اب وہ شہروں سے نکل کر، گائوں گائوں، قریہ قریہ، دیہات تک میں جلسے کررہے ہیں۔
حالات بگڑنے کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں، لیکن مشن تو مکمل کرنا ہے۔ پاکستانی معاشرے کی دھلائی، صفائی ستھرائی تو ضروری ہے، اُس سے چشم پوشی کیونکر ممکن ہے۔ ایک اسلامی مملکت میں کرپشن، عوام النّاس کے حقوق پر دن دہاڑے ڈاکہ، زمینوں پر قبضہ، آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی، اُس پر رونا کہ مجھے کیوں نکالا، آپ ہی بتائیں یہ کہاں کا انصاف ہے۔ کیا اس ملک میں غریبوں کا کوئی پرسان حال بھی کوئی ہوگا کہ نہیں۔ یہ ایک سوال ہی اپنی جگہ اہم ہے۔ اس کا جواب ہمیں حاصل کرنا پڑے گا، چاہے کتنی ہی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے۔
 

شیئر: