Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہر میں آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟ اسلام آباد میں نیا تنازع

اسلام آباد میں آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کرنے کے لیے شروع کیا گیا پروگرام اس وقت متنازع ہو گیا جب شہر کے دیہی علاقے ترلائی کے سٹریٹ ڈاگ کنٹرول سینٹر سے کتوں کی لاشوں سے بھرا ایک ٹرک باہر آتا دیکھا گیا۔
شہر میں آوارہ کتوں کی نس بندی کرنے اور انہیں ویکسین لگانے کے اس پروگرام کا آغاز وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) اور میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) نے کیا ہے۔ 
شہر میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کچھ تنظیمیں گذشتہ کئی برسوں سے آوارہ کتوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے سرگرم ہیں۔
ان ہی تنظیموں نے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی اٹھایا تھا جس کے بعد سال 2022 میں عدالت کی ہدایت پر سی ڈی اے نے ’سٹریٹ ڈاگ پاپولیشن کنٹرول سینٹر‘ قائم کیا۔
اس سینٹر کا کام آوارہ کتوں کو پکڑ کر اُن کی سرجری (نس بندی) اور ویکسینیشن (ٹی این وی آر) کرنے کے بعد انہیں دوبارہ اُن کے علاقوں میں چھوڑ دینا ہے۔
اس اقدام کا مقصد نہ صرف کتوں کو مارنے سے روکنا تھا بلکہ ان کی تعداد کو سائنسی طریقے سے کنٹرول کرنا بھی تھا تاکہ ان سے شہریوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔
تاہم جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ان تنظیموں کو شبہ ہے کہ سی ڈی اے ویکسینیشن کے بجائے کتوں کو مار کر اُن کی لاشیں تلف کر رہا ہے۔
ان میں سے ایک تنظیم کی سربراہ انیلا عمیر نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’وہ، ڈاکٹر غنی اکرام اور دیگر رضاکار جمعرات کی شب ترلائی کے سٹریٹ ڈاگ سینٹر کے باہر موجود تھے کیوں کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ رات کے وقت وہاں سے مُردہ کتوں سے بھرا ٹرک نکالا جاتا ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم جب سینٹر کے سامنے پہنچے تو کچھ دیر بعد سبز کپڑے سے ڈھکا کوڑے کا ایک ٹرک باہر نکلا۔ جب ہم نے اسے روکا تو دیکھا کہ وہ مُردہ کتوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر ہمیں شدید افسوس ہوا اور ہمارا شبہ یقین میں بدل گیا۔‘
انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’انہوں نے یہ منظر دیکھنے کے بعد 15 پر کال کی اور موقع پر موجود سینٹر کے منتظمین سے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔‘

اس سے قبل بھی کئی تنظیمیں یہ الزام لگا چکی ہیں کہ شہر میں آوارہ کتوں کو مارا جا رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ہم نے ان سے پوچھا کہ عدالت نے تو آپ کو ٹی این وی آر پروسیس کرنے کا کہا تھا تو پھر اتنے کتوں کی لاشیں کہاں سے آئیں؟ اس سوال کا ہمیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔‘
بعد ازاں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے میجر (ر) ڈاکٹر محمد غنی اکرام نے تھانہ شہزاد ٹاؤن اسلام آباد میں واقعے کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے لیے درخواست جمع کروائی، جس میں متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیاہے، تاہم تاحال ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔
اردو نیوز نے اس معاملے پر وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کا مؤقف جاننے کی کوشش کی لیکن ترجمان کی جانب سے بتایا گیا کہ واقعے کی انکوائری جاری ہے اور باضابطہ موقف جلد جاری کیا جائے گا۔
دوسری جانب سی ڈی اے کے ایک اعلٰی عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’گذشتہ کچھ عرصے سے بڑے پیمانے پر آوارہ کتوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔‘
’بعض اوقات کچھ کتے بیماری یا کمزوری کے باعث خود ہی مر جاتے ہیں، اس لیے اس طرح کے واقعات پیش آسکتے ہیں، البتہ کسی کتے کو جان بوجھ کر نہیں مارا گیا۔‘

ترلائی کے سٹریٹ ڈاگ کنٹرول سینٹر سے کتوں کی لاشوں سے بھرا کوڑے کا ٹرک باہر آتا دیکھا گیا (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

سی ڈی اے کے ترجمان شاہد کیانی نے قبل ازیں اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ’چیئرمین سی ڈی اے کی ہدایات پر آوارہ کتوں کے خلاف بھرپور آپریشن جاری ہے۔‘
ان کے مطابق ’ان کتوں کو عدالت کے طے کردہ طریقۂ کار، یعنی ٹی این وی آر کے تحت، سٹریٹ ڈاگ سینٹر لایا جاتا ہے اور ویکسینیشن کے بعد انہیں دوبارہ ان کے علاقوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘
یہ واضح رہے کہ ٹی این وی آر سے مراد کتوں کو پکڑنا، اُن کی نس بندی کرنا اور انہیں ویکسین لگانا ہے یعنی آوارہ کتوں کو پکڑ کر اُن کی نس بندی اور ویکسینیشن کی جائے اور پھر انہیں ان کے علاقوں میں واپس چھوڑ دیا جائے۔
اس عمل کا مقصد یہ ہے کہ آوارہ کتوں ان کی آبادی میں اضافہ نہ ہو اور انہیں مارنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے، اور اُن کے کاٹنے کی صورت میں بیماری کے خطرات بھی کم ہوں۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ اسلام آباد میں آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے حوالے سے مختلف تنظیمیں اسلام آباد ہائی کورٹ اور وفاقی محتسب سے بھی رجوع کر چکی ہیں۔
سی ڈی اے کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ شدہ طریقۂ کار کے تحت آوارہ کتوں کا علاج، اُن کی نس بندی اور ویکسینیشن یقینی بنائی جائے تاکہ شہر میں اُن کی آبادی میں اضافہ روکا جا سکے۔

شیئر: