Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طیفی بٹ کی گرفتاری اور سی سی ڈی کی اینٹری: کیا لاہور انڈرورلڈ کی لڑائی ختم ہونے جا رہی ہے؟

ایک انٹرویو میں گوگی بٹ نے کہا کہ ’میں تاجر ہوں، قاتل نہیں۔‘ (فائل فوٹو: سما یوٹیوب)
لاہور کے انڈر ورلڈ کی لڑائی کیا ہمیشہ کے لیے ختم ہونے جا رہی ہے؟ کیا دونوں متحارب گروہوں کو ریاستی طاقت سے روکنے کی تیاری ہو رہی ہے؟ یہ کچھ سوالات ہیں جو امیر بالاج قتل کیس میں ہونے والی آخری بڑی پیش رفت کے بعد پولیس اور جرائم کی دنیا میں اٹھائے جا رہے ہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ پولیس نے ’اتفاق‘ سے امیر بالاج قتل کیس کے مرکزی ملزم طیفی بٹ کو دبئی سے گرفتار کر لیا ہے۔ جس کے بعد گذشتہ کئی دنوں سے انڈرولڈ کی اس لڑائی کا معاملہ ایک مرتبہ بھر زبان زد عام ہے۔
پولیس کی ایک ٹیم انٹرپول کی مدد سے دو اشتہاریوں کو بیرون ملک سے گرفتار کرنے کے لیے گئی تھی
انڈرولڈ کی اس لڑائی کے کیس سے منسلک ایک اعلٰی پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’پنجاب پولیس کی ایک ٹیم دو اشتہاری ملزمان کو گرفتار کرنے دبئی پہنچی تھی۔ ملزمان کی مخبری، جس فلیٹ اور کلب میں ہوئی تھی، ٹیم مسلسل اس جگہ کی ریکی کر رہی تھی۔ اور یوں یہ بریک تھرو ہوا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’خواجہ تعریف گلشن المعروف طیفی بٹ کو وہاں ایک پولیس افسر نے پہچان لیا اور اس پولیس افسر نے بغیر کوئی وقت ضائع کیے انٹرپول کی مدد سے اسے گرفتار کر لیا۔‘
یوں چار اکتوبر کو 19 ماہ سے فرار طیفی بٹ کو بالاج قتل کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری کو معمولی اس لیے بھی نہیں سمجھا جا رہا کیونکہ اس کا تعلق 90 کی دہائی سے لاہور کی گلیوں میں شروع ہونے والی خون ریزی سے براہ راست ہے۔

خون ریزی کی جڑیں

لاہور کے انڈرورلڈ کی یہ کہانی سنہ 1994 سے شروع ہوتی ہے۔ جرائم پر نظر رکھنے والے صحافیوں اور پولیس افسران کے اب تک کے بیانات کے مطابق اس لڑائی کا آغاز حنیف عرف حنیفا اور شفیق عرف بابا کے عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والہ پر حملے سے ہوا۔
ٹیپو، جو لاہور کے مشہور ٹرانسپورٹ کاروباری تھے، بچ گئے، لیکن یہ حملہ بٹ برادران کی فیملی کے ساتھ ان کی دشمنی کی بنیاد بن گیا۔ ٹیپو خاندان، جو ’ٹرکاں والہ‘ کے نام سے مشہور ہوا، پر سنہ 2003 میں ایوانِ عدل کے باہر ایک اور حملہ ہوا، جس میں پانچ لوگ مارے گئے اور ٹیپو شدید زخمی ہوئے۔ دوسری طرف بٹ برادران جو گوالمنڈی کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، نے اپنا نیٹ ورک بنایا جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔
یہ دشمنی صرف خاندانی نہیں تھی بلکہ اس کی جڑیں لاہور کی سیاست اور جرائم کی پوری دنیا تک پھیل گئی تھیں۔
سنہ 2018 تک پولیس کے ٹاپ 20 گینگسٹرز کی فہرست میں ٹیپو اور بٹ برادران کے نام شامل رہے۔ ٹیپو کو لاہور ایئرپورٹ پر قتل کیا گیا، اس کا مقدمہ بھی طیفی اور گوگی بٹ کے خلاف درج ہوا۔ بعدازاں ان کے بیٹے امیر بالاج ٹیپو نے خاندان کا انتقام لینے کی کوشش کی، لیکن وہ خود سنہ 2024 میں ایک شادی کی تقریب میں مارے گئے۔

اس لڑائی کا آغاز حنیف عرف حنیفا اور شفیق عرف بابا کے عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والہ پر حملے سے ہوا۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

گذشتہ ایک برس میں کیا ہوا؟

اس گینگ وار کا سب سے اہم واقعہ 19 فروری 2024 کا وہ دن تھا، جب ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں امیر بالاج ٹیپو ایک شادی کی تقریب میں موجود تھے۔ پولیس رپورٹس کے مطابق اس تقریب میں ایک مظفر حسین نامی شخص، جس کا تعلق طیفی بٹ گینگ سے رہا ہے، نے بالاج کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ بالاج ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئے، جبکہ ان کے باڈی گارڈ نے مظفر کو موقع پر گولی مار دی۔
اس فائرنگ میں تین مہمان زخمی ہوئے۔ چوھنگ پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج ہوا، اور مرکزی ملزمان کے طور پر طیفی اور گوگی بٹ کو نامزد کیا گیا۔ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں گوگی بٹ کو اس قتل کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا، جو طیفی بٹ سے مسلسل رابطے میں تھے۔
اس کے بعد پولیس نے بالاج کے قریبی دوست احسن شاہ کو گرفتار کر لیا، جو پولیس کے مطابق مخبری میں ملوث تھے۔ اگست 2024 میں مبینہ ’پولیس مقابلے‘ میں احسن شاہ ہلاک ہو گئے، اور ستمبر 2024 میں طیفی بٹ کے بہنوئی محمد جاوید بٹ کو قتل کر دیا گیا۔
گذشتہ کچھ دنوں میں یہ کیس تیزی سے بدلا ہے۔ طیفی بٹ کی گرفتاری کے بعد انٹرپول کے ریڈ نوٹسز کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ تاہم وہ ابھی تک پاکستان واپس نہیں آئے اور مناسب قانونی کارروائی کے بعد انہیں لایا جائے گا۔
دوسری طرف گوگی بٹ ضمانت پر ہیں اور امیر بالاج کے قتل میں ملوث ہونے سے سختی سے انکار کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے کئی یوٹیوب انٹرویوز دیے، جہاں انہوں نے دشمنی کا پس منظر بیان کیا۔

پولیس نے امیر بالاج کے قریبی دوست احسن شاہ کو گرفتار کر لیا، جو مخبری میں ملوث تھے۔ (فائل فوٹو: ایکس)

ایک انٹرویو میں گوگی بٹ نے کہا کہ ’میں تاجر ہوں، قاتل نہیں۔ بالاج کے خلاف کئی ایف آئی آرز تھیں، اور یہ جے آئی ٹی رپورٹ جانبدارانہ ہے۔‘
انہوں نے ٹیپو گروپ کے سیاسی روابط کا بھی ذکر کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کا چار برس سے طیفی بٹ سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
ایک اور انٹرویو میں گوگی بٹ کا کہنا تھا کہ ’احسن شاہ کی موت اندرونی سازش تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’اگر ان کے بھائی طیفی کو کچھ ہوا تو حکومت ذمہ دار ہو گی۔‘
کہانی میں کلائی میکس اس وقت آتا ہے جب اسی دوران سی سی ڈی نے امیر بالاج قتل کیس کی تفتیش پولیس سے لینے کی باضابطہ درخواست دے دی ہے۔ ایڈیشنل آئی جی سہیل ظفر چٹھہ نے سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ کو خط لکھا تاکہ جے آئی ٹی سے کیس کو سی سی ڈی منتقل کیا جائے۔
یہیں سے وہ سوال جنم لیتے ہیں کہ کیا پولیس اور سی سی ڈی اس دہائیوں پرانی دشمنی کو ایک فیصلہ کن طریقے سے ختم کرنے جا رہی ہے؟ جیسے انہوں نے ماضی میں دیگر گینگز کے خلاف کیا؟ سی سی ڈی کی اس کیس میں اچانک دلچسپی جو عام طور پر ہائی پروفائل جرائم کو ہینڈل کرتی ہے، کیا سیاسی دباؤ یا اندرونی روابط کی نشاندہی کر رہی ہے؟ گوگی بٹ کے انٹرویوز اور بیانات سے لگتا ہے کہ یہ لڑائی ختم ہونے والی نہیں یہ تو ابھی ایک نئی شروعات ہے۔

 

شیئر: