Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بتان وہم و گمان

جاوید اقبال
بات ہو رہی تھی اس کاروانِ علوم کی جو کہیں 8ویں صدی سے قدم بڑھاتا اٹھا تھا اور یورپ کے ظلمت کدوں پر ضیاپاشی کرتا 15ویں صدی کے اختتام تک تکان کا شکار ہو کر ڈھے گیا تھا۔ تب مجھے آئن اسٹائن کا وہ واقعہ یاد آگیا۔
1921ء میں نظریاتی طبیعات میں نوبل انعام حاصل کرنیوالا اپنے وقتوں کا   یہ جینیس امریکہ کے مختصر دورے کے اختتام پر نیویارک سے مارچ 33ء کے آغاز میں واپس اپنے مادر وطن جرمنی کیلئے چلا۔ بحری سفر تھا۔ رستے میں اسے خبر ملی کہ 13مارچ  کو ہٹلر نے برسراقتدار آ کر گسٹاپو کو حکم دیا تھا کہ یہودیوں کا صفایا کردے۔ آئن اسٹائن کی رہائش پر قبضہ ہو گیا او راس کا سامان بحق سرکار ضبط کر لیا گیا چنانچہ اس عظیم سائنسدان نے اپنا سفر مختصر کیا اور جرمنی کی بجائے بلجیم کی بندرگاہ انٹورپ پر اتر گیا۔ بادشاہ سلامت کو خبر ملی تو انہو ںنے آئن اسٹائن کو ملاقات کی دعوت دے ڈالی۔ بحری جہاز سے اترتے ہی آئن اسٹائن نے سب سے پہلے جرمنی کے سفارتخانے میں جا کر اپنا پاسپورٹ وہاں حکام کے حوالے کر کے جرمن شہریت ترک کی اور پھر ریل گاڑی میں بیٹھ کر بلجیم کے ملک ِمعظم کی طرف چل دیا۔ ادھر اس مہمان خصوصی کے استقبال کیلئے شاہی محل سے فوجی بینڈ اور محافظوں کا باوردی دستہ اسٹیشن کیلئے روانہ کر دیا گیا۔ اپنے وقت پر ریل گاڑی اینٹورپ کے اسٹیشن پہنچی تو آئن اسٹائن نے اپنا جھولا شانے پر لٹکایا او رپلیٹ فارم پر اتر آیا۔ شاہی بینڈ استقبالی دھنیں بجا کر اسٹیشن پر لرزہ طاری کر رہا تھا۔ فوجی دستہ سلامی دینے کی  مشق کر رہا تھا۔ بے ترتیب لباس اور اڑتے سفید بالوں والا ڈھلتی عمر کا آئن اسٹائن مونڈھے پر جھولا سنبھالے اس شور و تردد میں سے خاموشی سے گزرتا باہر آگیا۔ کسی کو شک بھی نہ گزرا کہ ناٹے قد کا یہ دیوانہ ہی تو ہے جس کا انتظار ملکِ معظم کر رہے ہیں۔ اسٹیشن کے باہر گاڑی دستیاب نہ تھی چنانچہ آئن اسٹائن شاہی محل کا رستہ پوچھ کر پیدل ہی چل دیا۔ رستہ زیادہ طویل نہ تھا۔ 15، 20منٹ کے بعد مہمان درِقصر پر کھڑا محافظوں کو مطلع کر رہا تھا کہ وہ شہنشاہ معظم سے ملنا چاہتا ہے کیونکہ وہ آئن اسٹائن ہے۔ محافظوں نے ایک بے ترتیب حلیے والے بوڑھے کو جھڑک کر وہاں سے ہٹ جانے کا حکم دیا۔ آئن اسٹائن تھوڑا دور جا کر بیٹھ گیا۔ ریلوے اسٹیشن پر شور قیامت مچاتا بینڈ اور اپنے مارچ سے زمین کو لرزاتے محافظ جب تھک گئے تو یہ نتیجہ نکال کر کہ شاہی مہمان  نہیں آیا تھا واپس ہوئے۔ شاہی بگھی خالی لوٹی تو بادشاہ سلامت کا خشم و اضطراب قابل دیدتھا۔ تب قصر کے دربانوں نے خبر دی کہ صدر دروازے سے ذرا ہٹ کر ایک شخص بیٹھا ہے جو اپنے آپ کو آئن اسٹائن کہتا ہے۔ کہیں وہ سچ ہی نہ کہتا ہو ،چنانچہ تھوڑی تحقیق کے بعد اس شخص کو اسکے دستی جھولے سمیت شاہی بگھی میں بصد احترام سوار کیا گیا او رشاہی دربار تک رسائی کرائی گئی۔ 
مزید پڑھیں:افسردگی
یہ واقعہ ذہن میں آیا تو عالم اسلام کے اُن آئن اسٹائنوں کا ایک کارواں تصور میں چلا جو اگر آج زندہ ہوتے تو ان میں سے ہر ایک درجنوں نوبل انعامات جیت چکا ہوتا۔ آئن اسٹائن تو صرف علم طبیعات پر دسترس رکھتا تھا لیکن ہمارے سورج تو مختلف میدانوں میں یکتائے روزگار تھے۔ کتاب پر سے انکی نظریں نہیں ہٹتی تھیں اور قلم انکی انگلیوں سے جدا نہ ہوتا تھا۔ باایمان ، پُرخلوص اور سادہ زندگی ہوتی تھی۔ رزق خاک ہوتے وقت مال و متاع تو نہ چھوڑتے تھے، اپنی تحقیق کا ذخیرہ پس ماندگان کے حوالے کر جاتے تھے۔ چند نام تو یہاں لینا برمحل ہوگا:
معروف ریاضی دان محمد بن موسیٰ الخوارزمی تاریخ، جغرافیہ ، موسیقی اور علم نجوم پر بھی قابل فخر دسترس رکھتا تھا۔ 150کے قریب تصنیفات اپنے بعد آنے والے محققین کی جھولی میں ڈال گیا۔
بابائے کیمیا جابر ابن حیان نے  ساری عمر تجربہ گاہ میں تیزابوں کی دریافت میں گزاری۔ اپنے تجربات 100سے زیادہ کتب میں بیان کر کے آنے والی صدیوں کا محسن بن گیا۔
ابو اسحاق کندی علم ِطب، ریاضی، علم النجوم، فلسفہ ، منطق، میں اس کی رائے حرفِ آخر ہوتی تھی۔ 265کتب تصنیف کرگیا۔
زکریا الرازی نے طب اسلامی پر 200سے زیادہ تصنیفات کیں۔
شیخ الرئیس بوعلی سینا کیا نہیں جانتا تھا۔ 17برس کی عمر میں طب، فلسفہ، منطق، ریاضی ، علم النجوم، موسیقی اور شاعری کے آسمانو ںپر آفتاب بن کر جگمگا رہا تھا۔ ہرورز 50صفحات تحریر کرتا۔ 238کتب دنیا کو دے کر گیا۔
البیرونی نے 150سے زیادہ کتب تصنیف کیں۔ علم نور کا عبقری ابن الہیثم 200کتب لکھنے کے بعد رزق خاک ہوا۔ جڑی بوٹیوں پر تحقیق کرنیوالا ابن البیطار14سومختلف پودوں کی ہیئت کا مطالعہ کرتا رہا او رآخر کار 200نئی بوٹیاں دریافت کر گیا۔
مزید پڑھیں:مرن دا شوق
 
بابائے فلسفہ ابن رشد 20ہزار صفحات پر مشتمل 67کتب کی تصانیف دے گیا۔ ان میں سے ہر ایک کی زندگی آئن اسٹائن کی طرح ہی سادہ تھی او رہر ایک اپنے دور کا آئن اسٹائن تھا لیکن پھر ایک او رخیال بھی دامن دل کو کھینچتا ہے۔ وہ قرون وسطیٰ کے عظیم لوگ اس لئے بھی اپنی زندگیاںکسی حرص کے بغیر تحقیق و جستجو میں بسر کرتے تھے کہ ان کے وقتوں کے رہنما خود بھی طمع سے خا سادہ زندگی بسر کر دیتے تھے۔ ذہنوں میں مشعلیں بن کر ہمیشہ زندہ رہتے تھے۔ کیسے کیسے عظیم لوگ تھے۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ نے بستر مرگ پر ام المومنین حضرت عائشہ  ؓ کو وصیت کی ’’ہمارا اونٹ اور خدمتگار بیت المال کی ملکیت ہیں ۔ میرے بدن پر لباس بیت المال کے ماہانہ وظیفہ سے خریدا گیا تھا۔ میری وفات کے بعد تینوں اگلے خلیفہ حضرت عمر ابن الخطابؓ کے حوالے کر دیئے جائیں‘‘۔
امیرالمومنین عمر ابن الخطابؓ نے جب دنیا سے کنارہ کیا توترکے میں ایک کھردرا لباس اور 5دینار چھوڑے۔ 
سلطان صلاح الدین ایوبی نے خالی ہاتھ دنیا کو الوداع کہا۔ ان کی تدفین اور قبر کی اینٹوں کیلئے رقم ادھار لینا پڑی۔
عظیم فاتح خالد بن ولید کے ترکے میں ایک خدمتگار ، ایک گھوڑا اور ایک تلوار تھی۔
  تو یہ منور راہیں تھیں جن پر چل کر عالم اسلام کے آئن اسٹائن یورپ کے ظلمت کدوں کو روشنیاں عطا کرتے رہے  اور آج جب مدارس مویشیوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں اور امت کے وہ رہبر جو عمر ابن الخطابؓ کے وارث ہیں قارون بنے بیٹھے ہیں تو ابن سینا ، ابن الہیثم  عالم اسلام کے آئن اسٹائن کہاں سے آئیں؟ 
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں لاالہ الاللہ
مزید پڑھیں:تیسری گٹھڑی کو لاگا چور
 
 
 

شیئر: