Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گیس کے گردشی قرضے میں کمی کے لیے پیٹرول، ڈیزل پر لیوی لگانے کا منصوبہ

گیس کے شعبے پر مجموعی گردشی قرضہ 31 سو ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے (فوٹو: ماڑی پیٹرولیم)
پاکستان میں گیس کا گردشی قرضہ کم کرنے کے لیے وفاقی حکومت پیٹرول اور ڈیزل پر پانچ روپے اضافی لیوی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے، یہ بنیادی طور پر گیس کے شعبے پر موجود قریباً 3100 ارب روپے کے گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے حکومت کا ایک مجوزہ منصوبہ ہے۔
پیٹرولیم ڈویژن کے مطابق حکومت نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ تو نہیں کیا، البتہ یہ تجویز ایک ممکنہ آپشن کے طور پر زیرِغور ہے۔ اس حوالے سے وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ ’حکومت اس تجویز کو ایک آپشن کے طور پر دیکھ رہی ہے، لیکن ابھی اس کی منظوری نہیں ہوئی۔‘
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات یعنی پیٹرول اور ڈیزل پر اس وقت بالترتیب 75.41 اور 79.62 روپے تک فی لیٹر پیٹرولیم لیوی عائد ہے، اور مختلف ٹیکسز اور مارجن شامل کرنے کے بعد یہ شرح 100 روپے فی لیٹر سے تجاوز کر جاتی ہے۔
یاد رہے کہ حکومت نے اپریل 2025 میں پیٹرولیم مصنوعات پر 8 روپے اضافی لیوی عائد کی تھی، جس کا مقصد بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر بتایا گیا تھا۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حکومت نے حالیہ عرصے میں پیٹرولیم لیوی پر قانونی حد ختم کر دی تھی۔ ماضی میں پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی زیادہ سے زیادہ حد 70 روپے فی لیٹر تھی، لیکن بعدازاں یہ حد ہٹا دی گئی۔
حکومت کا موجودہ منصوبہ کیا ہے؟
وزارت توانائی کے مطابق اس وقت گیس کے شعبے پر مجموعی گردشی قرضہ 3100 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس رقم میں سے قریباً 1700 ارب روپے تک کا قرضہ پیٹرول اور ڈیزل پر پانچ روپے اضافی لیوی عائد کر کے کم کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کا منصوبہ ہے کہ گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ صرف گیس استعمال کرنے والوں سے نہیں بلکہ ان شہریوں سے بھی وصول کیا جائے جو براہِ راست گیس استعمال نہیں کرتے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ حکومت گیس کے گردشی قرضے کو صرف گیس صارفین تک محدود نہیں رکھنا چاہتی، بلکہ ملک کی وہ 75 فیصد آبادی جو براہِ راست نیٹ ورک گیس استعمال نہیں کرتی، ان سے بھی کچھ نہ کچھ وصولی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

سابق ممبر اوگرا محمد عارف کا کہنا ہے کہ گیس صارفین پہلے ہی اربوں روپے کے اضافی چارجز ادا کر چکے ہیں (فائل فوٹو: اے پی پی)

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں گیس کے مجموعی صارفین قریباً ایک سے سوا کروڑ کے درمیان ہیں، جو ملک کی کل آبادی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ بنتے ہیں۔
کیا حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے؟
اردو نیوز نے اس حوالے سے پاکستان کے معروف ماہرین سے رابطہ کیا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ حکومت کے پاس یہ اختیار ہے یا نہیں کہ وہ گیس کے گردشی قرضے کو پیٹرول اور ڈیزل کے صارفین سے پورا کرے؟
گیس کے شعبے کے ماہر اور اوگرا کے سابق ممبر محمد عارف کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی منطقی جواز نہیں ہے کہ ایک سیکٹر کا گردشی قرضہ دوسری سیکٹر کے صارفین سے وصول کیا جائے۔
اُنہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ پیٹرول اور ڈیزل کے صارفین سے گیس کے گردشی قرضے کے لیے رقم وصول کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ پاکستان کی زیادہ تر آبادی گیس استعمال نہیں کرتی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ گیس صارفین پہلے ہی اربوں روپے کے اضافی چارجز ادا کر چکے ہیں، اور اتنی زیادہ قیمتوں کے باوجود گردشی قرضے بڑھ رہے ہیں، جو حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔
پاکستان کے انرجی شعبے پر گہری نظر رکھنے والے ماہر اور سینیئر صحافی خلیق کیانی کے خیال میں تکنیکی طور پر حکومت اس لیوی کو نافذ کر سکتی ہے، کیونکہ اگر ای سی سی سے منظوری لے کر کابینہ سے بھی منظوری حاصل کر لی جائے تو یہ لیوی عائد ہو سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق ’اگر پیٹرول اور ڈیزل پر مزید لیوی عائد کی گئی، تو اس کا براہِ راست اثر ضروری اشیا کی قیمتوں پر بھی پڑے گا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اُن کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر حکومت پہلے ہی بھاری ٹیکسز عائد کر چکی ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ حالیہ عرصے میں بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر کے لیے پیٹرول اور ڈیزل پر لیوی عائد کی گئی، اور اسی طرح صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے بھی ان مصنوعات پر اضافی چارجز لگائے گئے تھے۔
’اس وقت ڈیزل پر ٹیکس 102 روپے جبکہ پیٹرول پر 105 روپے تک عائد ہے لیکن اگر حکومت اپنے تمام اخراجات صرف انہی مصنوعات پر ٹیکس عائد کر کے پورا کرنا چاہ رہی ہے تو پھر مزید ٹیکس بھی عائد کر دے۔‘
خلیق کیانی نے کہا کہ ’اگر پیٹرول اور ڈیزل پر مزید لیوی عائد کی گئی، تو اس کا براہِ راست اثر ضروری اشیا کی قیمتوں پر بھی پڑے گا۔‘
اُن کے مطابق اصولی طور پر حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ پیٹرول اور ڈیزل پر اس قسم کی لیوی عائد کرے، لیکن اگر حکومت نے اس کا فیصلہ کر لیا تو اسے روکا نہیں جا سکتا۔

 

شیئر: