مدینہ شریف میں مسجد نبوی کا اندرونی حصہ آج بھی ترک قوم کی اللہ کے رسولکے ساتھ محبت کا شاہکارہے
* * *عبدالمالک مجاہد۔ ریاض* * *
سلطنت عثمانیہ کو بتدریج زوال آتا چلا گیا حتیٰ کہ 1923ء میں اتا ترک کمال پاشا خلافت عثمانیہ کو ختم کر کے ترکی کی حکومت پر قابض ہو جاتا ہے۔ ترکی کے مسلمانوں پر مشکل ترین دور شروع ہو جاتا ہے۔ ترقی اور ثقافت کے نام پر اسلام کو ختم کرنے کی ناپاک کوشش ہوئی۔ 1935میں اتاترک نے جبراً اس مسجد کو میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ آج 82سال ہونے کو ہیں آیا صوفیا نہ چرچ ہے نہ مسجد ہے۔ یہاں ہر سال ایک کروڑ سے زائد لوگ سیر و سیاحت کرنے کے لئے آتے ہیں تاہم اب مسلمانوں کی ایک تنظیم حکومت سے اسے مسجد میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
آیا صوفیا سے5منٹ پیدل فاصلہ پر مسجد سلطان احمد ہے جسے نیلی یا بلیو مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد دنیا کی خوبصورت ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ اس کے تفصیلی حالات تو ان شاء اللہ آگے جا کر عرض کروںگا۔ اتنی سی بات ضرور ہے کہ آیا صوفیا سے ملحق بلکہ اسی احاطے میں طوپ کاپی کے قرب میں ایک مسجد ہے۔ ہم نے کوئی گھنٹہ بھر اس خوبصورت مسجد میں گزارا۔ باہر نکلے تو چائے پینے کو جی چاہ رہا تھا۔ احاطے میں کیفیٹریا نظر آیا۔ وہاں بیٹھ کر کپ چینو منگوا کر لطف اندوز ہونے لگے کہ ظہر کی نماز کا وقت آ گیا۔ مسجد سلطان ا حمد(نیلی مسجد) سے بڑی روح پرور آواز گونجی، اللہ اکبر، اللہ اکبر… میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ میں نے کہا کہ دوسری آواز آیا صوفیا سے آ رہی ہے۔ باقی اذان وقفے وقفے سے جاری تھی ۔میں نے کیفے کے ملازم سے پوچھا کہ کیا دوسری اذان کی آواز آیا صوفیا سے آ رہی ہے؟ جواب ملا نہیں یہاں اذان بند ہے مگر اس کے ملحق مسجد ہے، وہاں سے اذان کی صدا آپ کے کانوں میں آ رہی ہے ۔ میرے لئے اردوگان کے دیس میں ان اذانوں کا سننا ہی بڑا خوبصورت اور روح پرور تجربہ تھا۔ ہمارے قدم مسجد کی طرف اٹھ رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھاکہ بلاشبہ آج سے 1500سال پہلے جبکہ دنیا میں ہیوی مشینری نہ تھی ٹیکنالوجی نہ تھی‘ نہ ہی انجینیئرنگ یونیورسٹیاں تھیں، اتنی بڑی مسجد کیسے تعمیر کر لی گئی۔ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ میرے نبی کی پیشین گوئی تھی کہ مسلمان قسطنطنیہ کو ضرور فتح کریں گے۔
ترک قوم اسلام کے ساتھ بڑی محبت رکھتی ہے۔ مدینہ شریف میں مسجد نبوی کا اندرونی حصہ آج بھی ترک قوم کی اللہ کے رسولکے ساتھ محبت کا شاہکارہے۔ اس قوم کی اسلام سے محبت کا یہ عالم تھا کہ عثمانی خلفاء کے دور میں دمشق سے لے کر مدینہ شریف تک ریلوے لائن بچھائی گئی تاکہ حجاج اور معتمرین کو سفر کی سہولت میسر ہو چنانچہ اُس زمانے میں ٹرین چلتی تھی۔ آج بھی مدینہ شریف میں وہ ریلوے اسٹیشن موجود ہے ۔
ترک حکمرانوں اور بطور خاص محمد بن فاتح جنہوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا، ان کے بارے میں لکھنے سے پہلے میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہوں گا جس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ ترکی کے لوگ اللہ کے رسول ا ور مدینہ منورہ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔
مدینہ منورہ سے 2 نوجوان ترکی موج مستی کے لئے جاتے ہیں۔ استنبول سے انہوں نے شراب خریدی ،ٹیکسی میں سوار ہوئے اور شہر کے قریب ایک گاؤں کے ہوٹل میں رات گزارنے کا فیصلہ کیا کہ وہاں ان کو کوئی پہچاننے والا نہ ہو گا اور کرایہ بھی سستا ہو گا۔ چھوٹے سے ہوٹل کے کاؤنٹر پر استقبالیہ کلرک نے پوچھا کہ آپ سعودی عرب کے کس شہر سے آئے ہیں؟ جواب ملا کہ ہم مدینہ منورہ کے رہنے والے ہیں۔ استقبالیہ کے مؤظف نے جب مدینہ طیبہ کا نام سنا تو بے حد خوش ہوا۔ تو اس نے انہیں کمرہ کی بجائے اللہ کے رسولاور مدینہ منورہ کی محبت میں عام ریٹ پر سویٹ دے دیا۔ نوجوان بڑے خوش تھے۔ رات کو ان کے سامنے شراب تھی ۔ ایک نے خوب پی دوسرے نے تھوڑی پینے پر اکتفا کیا۔ جس نے خوب پی وہ تو دنیا جہاں سے بے نیاز بے ہوش سو گیا۔
قارئین! ذرا آپ اگلی بات پڑھیے:
ہوٹل کے ملازم نے اپنے گاؤں کے امام مسجد کو بتایا کہ ہمارے ہوٹل میں مدینہ منورہ سے آئے ہوئے 2مہمان ٹھہرے ہیں۔ امام صاحب نے گاؤں والوں کو بتا دیا۔ بس پھر کیا تھا پورے گاؤں میں شور مچ گیا کہ ہماری بستی میں مدینۃ الرسول سے مہمان آئے ہیں۔
فجر کا وقت ہوا کسی نے ان نوجوانوں کے دروازے پر دستک دی۔ پہلے آہستہ پھر قدرے زور سے دستک ہوئی۔ جس نے قدرے کم شراب پی رکھی تھی اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دستک کو سنا ۔کہنے لگا کہ یہ صبح سویرے ساڑھے 4بجے کون آ گیا ہے؟ اس نے دروازے پر لگے ہوئے مرر سے باہر دیکھا کہ استقبالیہ کا مؤظف کھڑا ہے۔
آوازی دی کہ کیا بات ہے دروازہ کیوں کھٹکھٹایا ہے۔ کہنے لگا کہ ہماری مسجد کے امام کو جب معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ سے مہمان آئے ہیں تو اس نے نماز پڑھانے کے لئے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ جب ہماری بستی میں مدینہ سے لوگ آئے ہوئے ہیں تو نماز پڑھانے کے وہی حقدار ہیں۔ آپ پلیز جلدی سے نیچے آ جائیں لوگ آپ کے انتظار میں ہیں، انہیں آ کر نماز پڑھائیں۔
وہ مؤظف تو چلا گیا۔ ادھر اس نے اپنے ساتھی کو جلدی جلدی جگایا کہ اٹھو باہر لوگ ہمارے انتظار میں ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ تم مدینۃ الرسول کے رہنے والے ہو ہمیں نماز پڑھاؤ۔ ہاں تو نماز کون پڑھائے گا؟ مجھے تو قرآن کریم کی کوئی سورت نہیں آتی، تم ہی پڑھاؤ۔
قارئین جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اسے لمحات چاہئیں۔ اتنی دیر میں مؤظف استقبالیہ پھر آ گیا جلدی کریں ۔ اذان کب کی ہو چکی ہے۔ لوگ انتظار میں ہیں۔ ایک نے جلدی جلدی وضو کیا، کپڑے تبدیل کیے اور جلدی سے نیچے اترا ۔ چند منٹوں میں دوسرا بھی تیار ہو کر آ گیا۔ مسجد میںداخل ہوئے تو مسجد نمازیوں سے اس طرح کچھا کچھ بھری ہوئی تھی گویا جمعہ کی نماز ہے۔ ان میں ایک امامت کے مصلیّٰ پر کھڑا ہوا۔ اللہ اکبر کہہ کرجماعت کروانا شروع کی۔ الحمدللہ رب العالمین کہا تو اسے اللہ کا خوف ،اس کا ڈر آ گیا۔ اپنے گناہوں پر نادم ، اس کی چیخیں نکل گئیں۔ امام رویا تو مقتدی بھی رو دیے۔ اسے سورت اخلاص ہی آتی تھی۔ وہی دوسری رکعت میں بھی پڑھ دی مگر اس کی ہچکیاں بندھ گئیں ۔ نمازی بھی رو رہے ہیں۔ سلام پھیرا تو لوگ ان پر ٹوٹ پڑے۔ وہ ان سے مصافحہ کر رہے ہیں، ان کے ہاتھوں کو چوم رہے ہیں۔ یہ عرب ہیں ،یہ اللہ کے رسولکے شہر سے آئے ہیں اور قارئین کرام! یہ واقعہ ان دونوں کی ہدایت کا سبب بن جاتا ہے۔ ان میں سے ایک نوجوان تو بڑا عالم دین اور مشہور داعی بنتا ہے۔
بلاشبہ بعض اوقات اللہ رب العزت اپنے بندوں کے لئے ایسے اسباب مہیا کر دیتا ہے کہ وہ معمولی واقعات انسان کی ہدایت کا سبب بن جاتے ہیں۔
قارئین کرام! میںنے آپ کو یہ واقعہ اس لئے بیان کیا ہے تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ ترک اللہ کے رسولاور اہل مدینہ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی حالات نے کایا پلٹی وہ قوم جسے زبردستی سیکولر بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا تھا، اس نے جلد ہی اپنے اندر اس طرح تبدیلی پیدا کی کہ آج سے28 یا30 سال پہلے میں نے خود اپنی آنکھوں سے استنبول یونیورسٹی کے صدر دروازے پر برقع پہنے ہوئے نقاب کیے یونیورسٹی کے طالبات کو دیکھا تھا۔ ترک قوم نے اسلام کی بقااور اسلامی شعائرات کی خاطر بے حد قربانیاں دی ہیں۔
ہم دونوں میاں بیوی نے ظہر اور عصر کی نماز مسجد سلطان احمد میں ادا کی ۔یہ مسجد بہت بڑی ہونے کے ساتھ بڑی مضبوط بنی ہوئی ہے۔ نہایت صاف ستھری مسجد ہے۔ جب ہم نماز کے لئے مسجد سلطان احمد میں داخل ہوئے تو جماعت ہو چکی تھی۔ میرے ذہن نے سرگوشی کی کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ تم اس مسجد میں جماعت کرواؤ۔ احناف کے ہاں مسجد میں دوسری جماعت جائز نہیں جبکہ سعودی عرب اور پاکستان کی اہلحدیث مساجد میں دوسری جماعت کروانا جائز ہے۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ ایک اور صاحب آ گئے۔ انہوں نے مجھے اشارہ کیا کہ چلو جماعت کرواتے ہیں ۔ اصرار سے مجھے امامت کے لئے کھڑا کر دیا۔ اور لوگ بھی آتے چلے گئے۔ اسلام میں وسعت ہے۔ با جماعت نماز کا ثواب 27گنا زیادہ ہے۔ میں اذان کے فورا ًبعد ہی مسجد میں چلا آیا تھا۔ وضو کرکے مسجد میں داخل ہوتے ہوئے جماعت نکل گئی۔ یہ میرے ساتھ ہی نہیں سیکڑوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیا ذرا سی تاخیر ان لوگوں کو اجر و ثواب سے محروم رکھے گی اس لئے دوسری جماعت کروائی جا سکتی ہے۔
شام کے وقت ابو انس سیف الاسلام کے ساتھ قرآن کریم کے جرمن ترجمہ کے حوالے سے میٹنگ تھی جس کے لئے میں بے حد بے چین تھا۔ وقت سے قدرے پہلے ابو انس کا فون آ گیا کہ میں ہوٹل کی لابی میں ہوں۔
ابو انس بڑا خوبصورت نوجوان ہے۔ اس کی عمر 40 کے قریب ہے۔ آنکھوں سے بلا کی ذہانت ٹپکتی ہے۔ میں اس کے لئے ریاض سے اعلیٰ درجے کی کھجوروں کا تحفہ لے کر آیا تھا۔ بیرون ملک جاؤں تو میرے نزدیک کھجور سب سے بہترین تحفہ ہے۔ چونکہ وزن کی گنجائش تھی اس لئے میں کافی تعداد میں کھجوریں لے کر آیا تھا۔ مجھے ذاتی طور پر صقعی پسند ہے۔ موٹی کھجور بڑی رسیلی اور مزیدار ہوتی ہے۔ صقعی میں میٹھا قدرے کم ہوتا ہے اس کے ساتھ ہم نے بادام بھی رکھ لئے تھے۔ جب کبھی بھوک محسوس ہو تو چند کھجوریں دودھ کے ساتھ مکمل غذائیت دیتی ہیں۔ ان کھجوروں نے بڑا فائدہ دیا ۔جس کسی نے میری مدد کی، مسکرا کر بولا،تعاون کیا یا اس سے ملنے کے لئے گیا تو اسے کھجوروں کا تحفہ مل گیا۔ ابو انس سے جرمن زبان میں قرآن پاک کے ترجمہ کی میٹنگ بڑی مفید رہی ۔ میں انہیں اپنا نقطۂ نظر سمجھانے میں کامیاب رہا۔ میں اپنے ساتھ احادیث لے کر آیا تھا۔ سوفٹ کاپی اور ہارڈ کاپی بھی موجود تھی۔ میں نے ابو انس سے کہا کہ قرآن کریم کے ترجمہ کے ساتھ ساتھ شرح کے لئے ان احادیث کا بھی ترجمہ کرنا ہے۔
میٹنگ کے اختتام پر ابو انس کا اصرار تھا کہ چلو میں آپ کو کھانے پر لے چلتا ہوں ۔ میں نے کہا کہ چلو مگر پیسے میں دوں گا۔اس نے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ کہاکہ شیخ فرض کریں میں ریاض میں جاؤں تو کیا کھانے کے پیسے میں ادا کروں گا۔ کیا آپ میری میزبانی نہیں کریں گے ؟اب آپ استنبول میں ہیں یہ میرا شہر اور وطن ہے۔ اس کی بات میں وزن تھا۔
اسلام ہمیں اکرام ِضیف سکھاتا ہے۔ میں نے اس کی بات مان لی اور ساتھ ہی پرانے دور کے کھانوں کی فرمائش کر دی ۔ ہم ٹرام پر بیٹھے اور اندرون شہر چلے گئے۔ واقعی ترکی کے کھانے بڑے مزیدار ہیں۔ ہم نے پرانے دور کی ڈشیں منگوا کر کھائیں۔ کھانے کے بعد طے پایا کہ ہم ایک اور ملاقات کریں گے جس میں مزید تفصیلات طے پائیں گے۔ ابو انس ہمیں سمندر کی سیر کے لئے بھی لے گیا۔
ترکی میں ہر جگہ عربی بولنے والے لوگ موجود ہیں۔ اس وقت کم و بیش4 ملین شامی مہاجر آباد ہیں۔ یہ ہر جگہ کام کر رہے ہیں ۔اکثر سیلس مین ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ان میں سے جو پروفیسر ‘ ڈاکٹر یا اعلیٰ ڈگریاں رکھنے والے تھے حکومت نے ان کو ترکی کی شہریت دیدی ہے۔ باقی عام لوگوں کو نوکری کرنے کی اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام شامی جگہ جگہ ملازمت کرتے نظر آئے۔ بازاروں میں خوب چہل پہل تھی۔ بازار گاہکوں سے بھرے ہوئے تھے۔ دکانیں بھی چیزوں سے بھری ہوئی تھیں۔
جہاں تک صفائی کا تعلق ہے تو بلاشبہ استنبول شہر مجھے بے حد صاف ستھرا نظر آیا۔ بارش کی زیادتی کے سبب خاصے پارک جو بڑے ہرے بھرے ہیں موجود ہیں۔ اگر آج سے 15سال پہلے ترکی اور موجودہ ترکی کا موازنہ کیا جائے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک نے گزشتہ 10 سالوں میں خاصی ترقی کی ہے۔
ترکی کی اپنی تاریخ ہے ۔صدیوں پرانی تاریخ۔ کبھی اس ملک پر سلجوقی حکمران تھے ۔ ایک ترک باشندہ نے تو اپنے ملک کی تاریخ بیان کرتے ہوئے چنگیز اور ہلاکو خان کو بھی ترکی کے سابق بادشاہ قرار دیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کی بات درست نہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک زمانے میں ہمارا اقتدار افغانستان کے غزنی تک پھیلا ہوا تھا۔ غزنی وہ شہر ہے جہاں سے مغل بادشاہ ہندوستان گئے تھے۔
میں اپنے قارئین کو خلافت عثمانیہ کے اُس سنہرے دور میں لے جاؤں گا، جس دور میں قسطنطنیہ فتح ہوا۔ اس کا نام بدل کر اسلامبول رکھ دیا گیا جس کا مطلب ہے اسلام کا گھر۔ کثرت استعمال سے آہستہ آہستہ اسے استنبول کہا جانے لگا۔ ترکی کا یہ خوبصورت شہر ملک کے شمال مغرب میں آبنائے باسفورس کے دونوں طرف واقع ہے اور اسے دنیا کے تاریخی مشہور ترین اور خوبصورت ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ترکی میں دارالسلام کا نمائندہ شیخ عبداللہ عبدالحمید الاثری ہیں۔ ان کے پاس سعودی عرب کا اقامہ بھی ہے۔ ان کے مکتبہ کا نام مکتبہ الغرباء ہے۔ قارئین کرام! الغرباء کے نام سے چونک نہ جائیں۔ اللہ کے رسولکی مشہور حدیث ہے جس کے الفاظ ہیں: بداء الاسلام غریبا وسیعود غریبا کما بدأ۔ تو انہوں نے اس حدیث کے الفاظ سے مکتبہ کا نام الغربا رکھا ہوا ہے۔
ریاض سے میں نے ان کو میسیج بھیجا کہ میں ترکی آ رہا ہوں، تو ان کا جواب ملا کہ جس فلائٹ سے آپ ترکی آ رہے ہیں اسی فلائٹ سے میں ریاض آ رہا ہوں۔ میرا اقامہ ختم ہونے والا ہے۔ مجھے نہایت افسوس ہے مگر ریاض میں آپ کی واپسی پر ملاقات ہو گی۔ میرا سٹاف آپ کی ہر طرح سے خدمت کے لئے حاضر ہے۔ انہوں نے اپنے اس منیجر کا نام اور فون نمبر بھی ارسال کر دیا جو عربی زبان بولتا ہے۔ کہنے لگے کہ میں نے ان کو آپ کے بارے میں ہدایات دے دی ہیں، ویسے وہ سارے لوگ آپ کو اور دارالسلام کو جانتے ہیں۔
عبداللہ الاثری سے میری 20 سالہ تعلقات ہیں۔ بڑے اونچے لمبے قد ‘ بھاری جسم ‘ لمبی گھنی خوبصورت داڑھی‘ بات بات پر مسکراتے ہیں۔ انہوں نے مکتبہ الغرباء کا جس زمانے میں آغاز کیا تھا وہ آج سے 20 سال پہلے کا ترکی تھا۔ پہلے کاروبار اچھا نہ تھا مگر اب ماشاء اللہ انہوں نے خاصی ترقی کی ہے۔
میں نے ابو انس کو بتایا کہ میں مکتبہ الغرباء والوں کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ وہ کہاں ہیں ،تو ابو انس نے کہاکہ مکتبہ الغرباء یہاں سے صرف 3 سے 4 منٹ کے فاصلہ پر ہے۔ دنیا میں کتابوں کا کاروبار بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک زمانے میں یہ بازار کتابوں کے لئے معروف تھا ۔نجانے کتنے مکتبات تھے مگر اب یا تو وہ ختم ہو چکے یا کسی اور جگہ منتقل ہو چکے ہیں۔ جہاں کبھی مکتبات تھے، اب وہاں پر ہوٹل تعمیر ہو چکے ہیں تاہم بعض مکتبات ابھی بھی باقی ہیں۔ ابو انس نے میرا بازو تھا۔ماہم ہوٹل سے نکلے ۔کونے پر مسجد تھی ۔اس کے دائیں طرف کوئی 100میٹر کے فاصلے پر عربی اور ترکی میں مکتبہ الغرباء لکھا ہوا نظر آیا۔ میں وہاں داخل ہوا تو استاذ یوسف اور منیجر اور زینل نے استقبال کیا۔ کہنے لگے کہ ہمیں ریاض سے شیخ عبداللہ الاثری کا فون آ چکا ہے کہ عبدالمالک جو چیز بھی مکتبہ سے اٹھا لے اسے پوچھا نہ جائے۔ واقعی ان لوگوں نے تکریم کا حق ادا کر دیا۔