Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اس پیشے کو شوبز سے جوڑا جاتا ہے‘، خیبر پختونخوا کی خواتین کے لیے میڈیا کا شعبہ کٹھن کیوں؟

پشاور یونیورسٹی کے شعبٔہ صحافت کے طلبہ میڈیا کے مختلف اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ (فوٹو: یو او پی)
 اگرچہ خیبر پختونخوا کی آٹھ یونیورسٹیوں میں صحافت کا مضمون پڑھایا جا رہا ہے اور ہر سال درجنوں طالبات داخلہ بھی لیتی ہیں، تاہم عملی صحافت میں خواتین کی نمائندگی اب بھی مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹیوں کے شعبۂ صحافت کے بی ایس پروگرامز میں اوسطاً 200 طلبہ زیرِ تعلیم ہوتے ہیں جن میں صرف 50 طالبات ہوتی ہیں۔
پشاور پریس کلب سے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پشاور میں میڈیا کے مختلف اداروں میں 500 سے زیادہ مرد اور تقریباً 45 صحافی خواتین کام کر رہی ہیں۔
اس فرق سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والی بیشتر خواتین فیلڈ میں کیوں نظر نہیں آتیں؟
اردو نیوز سے گفتگو میں جامعۂ پشاور میں شعبۂ صحافت کی سابق لیکچرر اور ٹرینر لیلیٰ خالد نے بتایا کہ صحافت کے میدان میں خواتین کے نہ آنے کی وجوہات میں پختون معاشرے کی روایتی اقدار، صنفی امتیاز اور چیلنجنگ ماحول بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صحافت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لڑکیوں کے لیے عملی میدان میں قدم رکھنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ خاندان کی جانب سے دباؤ ہوتا ہے جبکہ ایسے والدین بھی ہیں جو اس شعبے کو اپنی بیٹیوں کے لیے موزوں نہیں سمجھتے۔
’اس کے علاوہ ایک اور بات یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہے کہ اکثر لڑکیاں بغیر کسی مقصد کے یونیورسٹیوں میں صرف ڈگری حاصل کرنے آتی ہیں، ان کو شوق نہیں بس صرف اور صرف ڈگری لینی ہوتی ہے۔‘
پشاور کی سابق صحافی صبا رانی نے 2014 میں پشاور یونیورسٹی سے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن میں ڈگری حاصل کی۔
داخلے کے وقت ان کی پہلی ترجیح شعبۂ صحافت ہی تھی اور وہ اس میں کیریئر بنانا چاہتی تھیں۔ تاہم تنخواہ وقت پر نہ ملنے اور دیگر پیشہ ورانہ مشکلات کے باعث انہیں اس شعبے کو خیرباد کہنا پڑا جس کے بعد انھوں نے شہد کے کاروبار شروع کر دیا۔
’پڑھائی کے ساتھ میں نے اسی وقت ریڈیو پاکستان اور ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ انٹرن شپ بھی شروع کر دی تھی۔ یعنی میں تین چیزیں بیک وقت کر رہی تھی۔ میرے پیشن (جذبے) کا یہ لیول تھا۔ لیکن پھر جب عملی میدان میں قدم رکھا تو پیشہ ورانہ مسائل کا سامنا ہوا۔ تنخواہ کا پتہ نہیں ہوتا تھا۔ ظاہر ہے جب آپ نوکری کر رہے ہوں تو تنخواہ کی ضرورت تو ہوتی ہے۔ گھر بھی چلانا ہوتا ہے۔ 2018 اور 2019 میں صحافیوں کے لیے اتنے مسائل تھے کہ میرے ساتھ فیلڈ میں کام کرنے والی بیشتر خواتین صحافیوں نے نوکری چھوڑ دی، کچھ نے شادی کر لی، شاید اس سوچ کے ساتھ کہ جان چُھوٹے۔ کسی نے پبلک ریلشنز آفیسر کی نوکری کر لی اور میں خود اب مارکیٹنگ کے شعبے میں ہوں اور ساتھ میں اپنا کاروبار بھی چلا رہی ہوں۔‘

فرزانہ علی پشاور میں آج ٹی وی کی بیورو چیف ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)

’صرف والدین ہی نہیں بہت سے رشتے داروں کا خیال رکھنا پڑتا ہے‘
پشاور پریس کلب کی 45 خواتین میں سے 22 مکمل رکن ہیں جو مین سٹریم میڈیا میں متحرک نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی وزیرستان، خیبر، ڈی آئی خان، سوات اور مردان جیسے اضلاع میں بھی اکا دکا خواتین سامنے آئی ہیں۔
ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی ناہید جھانگیر نے 2006 میں صحافت میں ماسٹرز کیا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران نیوز کاسٹر، رپورٹر، ایڈیٹر اور پروگرام پروڈیوسر کے طور پر کام کیا ہے۔
لیکن اب وہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں اسسٹنٹ میڈیا مینجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافت ایک محنت طلب شعبہ ہے اور اس میں فیلڈ میں نکل کر کام کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔
’خیبر پختونخوا میں صحافت کے شعبے میں فیلڈ ورک کے لیے خواتین کو مشکل سے اجازت ملتی ہے۔ اس پیشے کو اکثر شوبز سے جوڑا جاتا ہے۔ یہاں والدین، چچا، ماموں سب کی ترجیح ٹیچنگ کا شعبہ ہوتی ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں صرف والدین ہی نہیں بہت سے رشتے داروں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ماموں یا چچا، کزنز حتیٰ کہ علاقے کے لوگ کیا کہیں گے۔ یہ ساری چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو مدنظر رکھ کر نوکری کا انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ ٹیچر بننا ہے اور صحافت نہیں کرنی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر گھر والے سپورٹ بھی کریں تب بھی ماما یا چاچا جیسے رشتہ داروں کو اعتراض ہوتا ہے۔
’رواں برس جنوری میں ہم تینوں بہنوں پر حملہ ہوا تھا اور وہ بھی اس بات پر کہ آپ فیلڈ میں کام کرتی ہیں اور مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ جب ہمیں یہ کہا گیا تو ہم نے اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا تھا لیکن پھر ہم پر حملہ ہوا۔ میرے والدین اس وقت زندہ نہیں لیکن مشکل ہے کہ میں اس فیلڈ کو جاری رکھتی، ہو سکتا ہے کہ وہ مجبور کرتے کہ یہ نوکری بھی چھوڑ دو۔‘

ناہید اور ان کی بہنوں پر ان کے کزن نے حملہ کیا تھا۔ (فوٹو: بشکریہ پی پی آئی)

کوہاٹ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم راحیلہ تاج صحافت کے عملی میدان میں جانا چاہتی ہیں، وہ ریڈیو کے لیے کام کرتی ہیں اور کالم بھی لکھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب ہم کسی کو کہتے ہیں کہ میڈیا سٹڈی کر رہے ہیں تو کہا جاتا کہ کیا آپ ٹی وی پر آئیں گی۔ اور پھر خاندان کا ہر دوسرا تیسرا فرد کہتا ہے کہ آپ کی بیٹی ٹی وی پر آئیں گی۔ پسماندہ علاقوں میں اس چیز کو برا سمجھا جاتا ہے اور اسی ڈر خوف کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں کا ٹیلنٹ ضائع ہو جاتا ہے۔‘
پشاور کی سینیئر صحافی اور آج ٹی وی کی بیوروچیف فرزانہ علی نے حال ہی میں ایک غیرسرکاری ادارے کے پروجیکٹ کے تحت مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہۂ صحافت کے طلبہ کی ٹریننگ کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انٹرن شپ کے دوران بہت کم طالبات ہی عملی میدان میں جا پاتی ہیں کیونکہ زیادہ تر کو گھر سے جانے کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ ’کلچر آڑے آ جاتا ہے۔‘
 ’باجوڑ کی ایک لڑکی کو صحافت کو بہت شوق تھا لیکن والدین کی طرف سے اس کو اجازت نہیں تھی۔ وہ اپنی تحریریں ہمیں بھیجا کرتی تھیں اور وہ قلمی نام سے لکھتی تھی تاکہ والد اور بھائیوں کو پتہ نہ چلے۔ وہ گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتی تھی۔ یہاں اکثر پڑھی لکھی لڑکیاں گھر پر بیٹھ جاتی ہیں، لیکن صحافت ایسا شعبہ ہے جسے صرف گھر بیٹھ کر نہیں اختیار جا سکتا۔ اس میں لوگوں سے ملنا اور رابطے میں رہنا ضروری ہوتا ہے۔‘
خیبر پختونخوا میں گزشتہ تین دہائیوں میں تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، تعلیمی اداروں اور مختلف شعبوں میں خواتین بھی نظر آ رہی ہیں لیکن آج بھی خواتین کو روایات اور معاشرتی دباؤ کا سامنا ہے۔

45 خواتین میں سے 22 پشاور پریس کلب کی مکمل رکن ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)

’ابا کے کندھوں پر چڑھ کر اس مقام تک پہنچے ہیں‘
فرزانہ علی نے ڈیرہ اسماعیل کی گومل یونیورسٹی سے ماسٹر کیا تھا اور 90 کی دہائی میں صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ خیبر پختونخوا میں کسی ٹی وی چینل کی پہلی خاتون بیورو چیف ہیں۔
ان کے لیے بھی صحافت کا پیشہ آسان نہیں تھا لیکن ان کے والد ان کے ساتھ کھڑے رہے۔
’میرے پاس ٹریننگ کے لیے ہزارہ ڈویژن سے ایک بچی آئی تھی اور جہاں اس کی شادی ہو رہی تھی تو اس کے سسرال والے اسے فیلڈ میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔  مجھے میرے والد یاد آ گئے اور دل بھر آیا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کیونکہ اس بچی کو میں نے تربیت دی تھی۔ مجھے اپنا وقت یاد آ گیا کہ یا تو یہ ہو نہ کہ ہم جیسے لوگ ہوں جو معاشرے کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ ایک ابا ہمارے ساتھ کھڑے تھے باقی پورا خاندان دوسری طرف۔ تو ابا کے کندھوں پر چڑھ کر یوں کہیں کہ انہوں نے ساری باتیں تکلیفیں اور لوگوں کے طعنوں کا بوجھ برداشت کیا تو ہم آج اس مقام تک پہنچ گئے اور ہر والد بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا۔ معاشرہ بڑا ظالم ہے۔‘
جامعۂ پشاور کے شعبۂ صحافت کے مطابق 2019 سے اب تک چھ بیچز میں مجموعی طور پر 90 طالبات نے تعلیم حاصل کی۔
جامعۂ پشاور کے ترجمان اسسٹنٹ پروفیسر محمد نعمان خان کا کہنا ہے کہ ہمارے شعبۂ صحافت کے طلبا نہ صرف پشاور بلکہ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، جن میں خواتین بھی ہیں۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بعض طالبات ڈگری حتیٰ کہ کہ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے باوجود عملی میدان میں کم دکھائی دیتی ہیں۔ 
ان کا کہنا ہے کہ پشاور شہر جیسے ماحول میں خواتین کے لیے میڈیا کی فیلڈ بلاشبہ چیلنجنگ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خواتین کے لیے مواقع محدود ہیں۔

شیئر: