Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نظریہ ضرورت کا نیا انداز نظر

***سید شکیل احمد ***
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کیخلا ف فیصلہ کن کا رروائی کر ے۔ پاکستان کو ہر سال کر وڑوں ڈالر رقم دے رہے ہیں، دہشتگردی کے خلا ف مزید ہل جل کا مطا لبہ تو پر انا ہے مگر ڈونلڈ نے کر وڑو ں ڈالر کی بات کی ہے ۔ پر ویزمشرف کے دور میں ڈالر ملنے کی بات ہو تی تھی تو وہ درست تھا کیونکہ مشرف نے اپنے بیا نا ت اور کتا ب میں بھی تحریر ی طور پر تسلیم کیا ہے کہ اس نے امریکہ کو مطلوب افرا د پکڑکر دئیے اور اس کے عوض اپنی جیبیں بھر یں ۔اسی دولت کی ریل پیل سے وہ دنیا کے مہنگے تر ین علا قو ں میں مقیم ہیں ۔ بہر حال ڈونلڈکا یہ الزام پاکستانیو ں کے لیے فکر انگیز ہے کیونکہ اب تک ہر حکومت اور خاص طور پر مقتدر حلقو ں سے قوم کو یہی سننے کو ملا کہ پاکستان دہشتگردی کے خلا ف اپنی جنگ لڑ رہا ہے مگر ٹرمپ کے بیان سے تو یہ واضح ہو رہا کہ دہشتگردی کے نا م پڑ لڑی جانے والی جنگ دراصل امریکہ کی جنگ ہے جو پاکستان ڈالر وصول کرکے لڑ رہا ہے۔ اس کی وضاحت قوم کے سامنے ہونا ضروری ہے ۔
         جو بھی حقیقت ہو ایک بات تو سچی ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر کے نہیں بلکہ مشر ف نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے شروع کی۔ اگر مشرف امریکی مفاد ات کی جنگ اپنے اقتدار کے مفادات کیلئے نہ لڑ تا تو آج یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے کہ امریکی صدر کر ائے کے گوریلے ہو نے کا طعنہ دے رہا ہے ۔ چونکہ مشرف کو اقتدار کا چسکا لگ چکا ہے اس کے لیے وہ ہرحرکت کر نے کو تیا ر بیٹھا ہے جس طر ح وہ امریکہ کی ایک ٹیلی فو ن کال پر لیٹ گیا تھا اسی طر ح آج بھی وہ امریکہ کے لیے ہی کا م کر رہا ہے ۔ اگر چہ  امریکہ کے لیے کام کر نیوالے اور بھی ہیں مگر امریکہ کو سب سے زیا دہ بھر وسا مشرف پر ہے چنانچہ مشر ف نے جو یہ تجویز دی ہے کہ پا کستان میں طویل المدت نگر اں حکومت قائم کی جا ئے، ایسا انھو ں نے امریکی ایما ء پر کیا ہے کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں کوئی منتخب حکومت قائم ہو۔ امریکہ کے لیے پا کستان میں سب سے اچھا دور پر ویز مشر ف کا تھا ۔چونکہ  امریکہ  اور خود مشر ف یہ جا نتے ہیں کہ وہ جمہوریت کے ہو تے ہوئے اقتدار میں اور پا کستان کی سیا ست میں نہیں آسکتے اس لیے انھو ں نے یہ راستہ اختیار کرنے کی سعی کی ہے ۔ پر ویز مشر ف نے امر یکی ایما پر اپنے دور اقتدا ر میں ہر ممکن کو شش کی کہ پاکستان کو سیکو لر ، لبر ل اور روشن خیال قوتو ں کے حوالے کر دیا جائے کیونکہ  امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان کے اسلا می ریا ست ہو نے کے سبب اس کی دال یہا ں نہیں گل سکتی چنا نچہ اس نے پا کستان کو بنگلہ دیش ما ڈل بنا نے کی مساعی کر رکھی ہے ۔جس طرح حسینہ واجد بنگلہ دیش میں مذہبی رہنما ؤں کیخلاف مختلف حیلے بہانو ں سے کارروائی کر رہی  ہیں اور انسانی حقوق کا علمبر دار ہو نے کا دعو یٰ کر نے والا کوئی ملک بھی اس ما ورائے آئین اور قانو ن قتل کے خلا ف ٹس سے مس نہیں ہو رہا  بنگلہ دیش کو سیکو لر ، لبر ل ریا ست بنا دیا گیا ہے۔ امریکہ پا کستان کے بارے میں بھی انہی کا وشو ں میں مصروف ہے اور پا کستان میںآزاد خیال پا رٹی کے لیے راہ بھی اس غر ض سے ہموار کی جا رہی ہے ۔
            کہتے ہیں کہ بندے کی تدبیر پر اللہ بزرگ وبرتر کی تد بیر بھاری ہو تی ہے ۔دھر نو ں اور سیاسی جلسے وجلو سو ں اور تقریبا ت میں آزاد خیالی کے لیے گزشتہ5 سال کے دوران جتنے بھی جتن کیے گئے وہ سب الٹے ہو چلے ہیں ،موجو دہ حکمر ان پا رٹی اور پی پی کو اقتدار سے آئند ہ باہر رکھنے کے لیے لبر ل قوتو ں کو جس طر ح ابھا ر ہ گیا ،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کو جا م کر نے اور اقتدار کی نئے انداز میںتبدیلی کے لیے مذہبی قوتو ں کو استعمال کیا گیا اور وہ بھی ایک ایسے مسلک کے حوالے سے کیا گیا جو اپنے عقائد میں انتہا پسند ی کے حا مل ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں مذہب کی لہر سونامی بن کر اچھل پڑی اور مذہب کی یہ سوچ ایک نئی مگر مضبوط  طاقت کے ساتھ ابھر گئی ہے جس سے لبر ل ازم ، آزاد خیالی اور سیکو لر ازم کو شدید جھٹکے آئے ہیں۔ اس نئی سیا سی صورت حال پر امر یکہ بھی انگشت بدندان رہا گیا ہے ،چنا نچہ پا کستان میں نئی اسلا می بید اری کی جولہر بیدار ہوئی ہے اس سے امریکیوں کی نیند حرام ہو گئی ہے ، امر یکہ کے تھینک ٹینکرولسن کے تجزیہ نگار مائیکل نے پا کستان میں دینی قوتوں کی جانب سے دھر نے اور ان کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے پر تجزیہ کیا ہے ، انھو ں نے امریکی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ پا کستان پر دباؤ ڈالا جا ئے کہ وہ سخت گیر مذہبی قوتو ں سے چھٹکار ہ حاصل کر نے کے اقدام کر یں ۔
         پاکستان میں نئی مذہبی شخصیات کا سیا ست میں درآنا اور پھر انتخابی سیا ست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا بذات خود پاکستان میں لبر ل اور آزاد خیال قوتو ں کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ گو پا کستان میں سیا سی طور پر یہ ما حول پید ا کرنے کی کو شش کی گئی تھی کہ مذہبی جما عتو ں کا ووٹ تقسیم کر دیا جائے چنا نچہ ان کو سیا ست میں ملوث اسی بنیا د پر کیا گیا تھا مگر بد قسمتی یہ رہی کہ ایسے مذہبی معاملا ت پر ان کو استعمال کیا گیا جس پر پوری پاکستانی قوم یکسو ہے چنا نچہ اب حالا ت یہ لگ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پی پی جن کو معتدل اور سادہ لبرل جما عتو ں کی صف میں شامل کیا گیا تھا اور تحریک انصاف کی اڑان آزاد خیال ولبر ل جما عت کے طورپر ہوئی تھی ،اب ان قوتو ں کاآئند ہ انتخابات میں مقابلہ ان مذہبی قوتوں سے ہو گا جو پہلے سیاست میں عدم دلچسپی رکھتی تھیں مگر اب وہ پو ری تیاری کررہی ہیں گویا پا کستان کی صحیح جمہو ری قوتو ں کی راہ روکتے روکتے سارے ازم ہڈی بن کر گلے میں پھنس گئے ہیں ۔
         ان حالا ت کے پیش نظریہ ضرورت کے طر ز پر نظریہ تو از ن لا یا گیا ہے بعض حلقے نو از شریف اور عمر ان خان کے مقدما ت کو نظریہ ضرورت کی بجائے نظریہ توازن کانا م دے رہے لیکن نئی مذہبی شخصیات کے سیا ست میں وراد ہو نے کی وجہ سے نظریہ تو ازن کی بجائے نظریہ ضروت کو نئے انداز میں اختراع کیا جارہا ہے کیونکہ امریکی تھینک ٹینک نے کہہ دیا ہے کہ ان مذہبی شخصیات کو روکا جا ئے۔        
مشر ف جو امریکی مفاد ات میں اب بھی ملو ث ہیں، انھو ں نے یہ سعی بھی کی تھی کہ پاکستان میں جس طر ح انھو ں نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا ایک مر تبہ پھر فوج اقتدار پر قبضہ کر لے مگر اب ایسا نہیں ہو گا کیونکہ پاکستا ن کے تما م قومی ادارے اس بات کے شعور پر آگئے ہیں کہ پاکستان کے تما م قومی اداروں کو اپنی آئینی اور قانو نی حدو د میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور آپس میں ٹکر اؤ نہ پید اکر نا چاہیے ۔فیض آباد کا دھر نا اس نہج پر تھا کہ اگر فو ج چاہتی تو اقتدار کو اپنے ہاتھ میںلے لیتی مگر اس نے اس بارے میں سوچا بھی نہیں اور مسلئے کا حل تلا ش کرکے سول حکومت کو بالا دستی دلا دی چنا نچہ مشرف اپنے خواب غفلت میںہی مگن رہ گئے ۔
 

شیئر: