Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2018: خوشخبریوں اور دھمکیوں کا سال

سعودی اخبارالمدینہ میں شائع ہونیوالے کالم بعنوان ’’ 2018: خوشخبریوں اور دھمکیوں کا سال‘‘کا ترجمہ پیش خدمت ہے

 2018: خوشخبریوں اور دھمکیوں کا سال
عبدالمنعم مصطفی
  بے چینی کے گزشتہ 10برسوں نے ہمیں زبردستی حکمت اور فراست کی دہلیز پر لاکر کھڑا کردیا۔2008ء میں سرابھارنے والے عالمی مالیاتی بحران کا سلسلہ ابتک جاری ہے۔
    عالمی مالیاتی بحران کا پہلا شعلہ امریکہ سے اٹھا تھا جہاں غیر منقولہ جائدادوں کو رہن رکھنے کے دھماکہ خیز واقعات لہمن برادرز بینک کے سقوط کا باعث بنے تھے۔ اسے 3ٹریلین ڈالر کا خسارہ ہوا تھا۔ 11ستمبر کے طیارہ حملوں کے باعث عالمی نظام کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری قراردیدی گئی تھی۔
    مشرق وسطیٰ کے علاقائی گوشوارے ظاہر کررہے ہیں کہ ’’عرب بہار ‘‘نامی آتش فشاں بھڑکنے کی شروعات سے لیکر اب تک خطے کے ممالک 3ٹریلین ڈالر گنوا چکے ہیں۔ عالمی مالیاتی بحران کے مالیاتی اقتصادی اور سماجی نتائج ہمیں عرب بہار نامی منظر نامے کی طرف لے گئے ۔ یہ سال ہمارے لئے آزمائش اور قحط کے سال ثابت ہوئے، ان میں ہمیں 3ٹریلین ڈالر گنوانے پڑے۔ تعمیرِنو پر خرچ آنیو الے اخراجات اس پر مستضاد ہیں، وہ اس میں شامل نہیں۔
    خطے کے تمام ممالک میں امن اخراجات قومی اخراجات کی ہر مد پر فوقیت رکھتے ہیں۔ اس سے کوئی ملک مستثنیٰ نہیں ۔اگرایک طرف
امن خدشات نے عرب دنیا کے عام لوگوں میں سیاسی آگہی بڑھا ئی ہے تو دوسری جانب وہ یہ حقیقت سمجھنے سے قاصر رہے کہ وہ تبدیلی کے ماحول کا ایندھن بنے ہیں اور انہیںایک خام مادے کے طور پر استعمال کیا گیاہے۔
    2017ء کی شروعات سے چند روز قبل میں نے کہا تھا کہ 2016ء کے آخری ایام فضاؤں میں خطرات کا الارم بجا رہے ہیں۔ خوشخبریوں کا نہیں۔ میں نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے یہاں نئے سال کے شروع میں کچھ ایسے شواہد دیکھے جارہے ہیں جن سے یقین ہوتا ہے کہ 2017ء میں دہشتگردی کی لہر میں شدت آئیگی اور یہ ایسے علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی جو ابتک مسلح دہشتگرد جماعتوں کے نقشے میں شامل نہیں۔ میں نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ 2017اسکے باوجود اپنی اچھی کارکردگی کے تناظر میں سب سے مختصر سال ثابت ہوگاکیونکہ اس سال برسرپیکار فریق ایک دوسرے سے لڑ بھڑ کر تھک ہار جائیں گے۔میں نے توقع ظاہر کی تھی کہ 2017ء کا اختتام حقیقی امن کی شروعات کی نوید دیگا۔ سال کے اختتام پر کشمکش کا مالِ غنیمت تقسیم ہوگا۔ ہر ایک بقدر محنت اپنا حصہ وصول کریگا۔ سب سے زیادہ مال غنیمت وہ فریق کمائے گا جو سب سے کم تھکا گا۔
    کیا میں اپنے قارئین سے یہ سوال کرسکتا ہوں کہ کوئی مجھے بتائے کہ 2017ء کے قریب الختم ہونے پر سب سے کم تھکنے والا فریق کون ہے؟سوال مشکل نہیں ۔ ہر کس و ناکس اس کا جواب دے سکتا ہے۔تمام علاقائی فریقوں کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ اسرائیل واحد ملک ہے جو 2017ء میں کم سے کم مشکلات سے دوچار ہوا اور اس نے زندگی بھر جن جن انعامات اور نعمتوں کے خواب دیکھے تھے وہ 2017کے اختتام سے قبل اسے حاصل ہوگئے۔
    کیا قارئین میں سے کوئی شخص مجھے یہ بتاسکتا ہے کہ 2017ء کے قریب الختم ہونے پر عرب بہار کے سالوں سے سب سے زیادہ منافع کمانے والے فریق کون ہیں؟جواب یہ ہے کہ عرب دنیا سے تعلق رکھنے والے تمام بین الاقوامی فریق فیضیاب ہوئے۔ کم و بیش کے فرق سے ہر ایک نے فائدہ اٹھایا تاہم ایسالگتا ہے کہ روس نے سب سے زیادہ منافع حاصل کیا۔ خطے کے بحرانوں اور اس کی جنگوں نے روس کو یوکرین کو اپنی قلم رو میں شامل کرنے کے معرکے سے باہر آنے پر آمادہ کیا اور اس سلسلے میں اس کا جو خسارہ ہوا وہ نہایت محدود ہوا۔ اس کے بالمقابل روس کو شام میں بحری اور فضائی اڈے حاصل ہوگئے۔ نیٹو سے ترکی کی وابستگی کو متزلزل کرنے کی مہم میں بھی اسے کامیابی ملی۔ شام اور عراق میں روس سے باہر روسی قوقاز کے دوائش کے خلاف احتیاطی حملے کرنے کا موقع ملا۔
    میں نے 2017ء کی آمد پر یہ بھی کہا تھا کہ یہ سال دسترخوانوں پر بچے ہوئے کھانے اٹھانے کا سال ہوگا۔ بلا شبہ 2017ء کے دوران عرب خطے میں ہونیوالی اکھاڑ پچھاڑ سے نہ جانے کتنی جانیںضائع ہوئیں اور نہ جانے کتنے لوگوں کے گھروں میں چراغ جلے۔
    2018ء ممکن ہے برتن دھونے کا سال ہو۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ سال رواں کا اختتام اور آنیوالے سال کی شروعات اپنے آپ میں کوئی پیغام نہیں رکھتی۔ سب کچھ علاقے کے دسترخانوں کے مہمانوں کے سامنے ہے۔ انہیں اپنی طلب پانے کیلئے ان کے پاس وقت ہے ۔ممکن ہے پورا سال اسی میں صرف ہوجائے۔
     اگر امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی حکومت 2018 ء کے دوران شمالی  کوریا  کے مسئلے کی گتھی سلجھانے میںلگ گئے اور غالب گمان ہے کہ آنیوالے سال میں یہی کچھ ہونے والا ہے تو  مشرق وسطیٰ  کے پیروں تلے سے بساط اٹھ جائیگی ۔ ممکن ہے مشرق وسطیٰ  میں  موجودہ علاقائی طاقتوں  یا  ابھرنے والی نئی طاقتوں کے درمیان توازن  کے  نئے میدان کھل جائیں۔
    2018 ء کے دوران خطے میں آنے والی متوقع تبدیلیوں کی گرما گرمی ممکن ہے  جلا دینے والی ثابت ہو۔ تسلی کا پہلو یہ ہے کہ اس  خطے کے لوگ  وقت کے ساتھ خصوصی تعلق کے تحت  امن وامان  کا احساس رکھنے کے ماہر ہیں۔  یہ خطہ اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ اس خطے کے لوگ گوناگوں تجربات کے حامل ہیں ، اتنے تجربات  پورے کرۂ  ارض پر کسی قوم کے نصیب میں  نہیں آئے۔
     مشرق وسطیٰ کی اقوام  اس یقین کے ساتھ  زندگی گزار رہے ہیں کہ بقاء ان کا نصیب ہے۔ انہیں  یہ بھی بھروسہ ہے کہ  حملہ آور  اور سرکش  طاقتوں کو اپنی موت آپ مرنا ہوگا۔ انہیں یہ بھی گمان ہے کہ حادثات ، واقعات کتنے بھی طوفانی نوعیت کے کیوں نہ ہوں،  وقت کی تلوار  یہاں کے لوگوں ہی کے ہاتھوں ہی میں رہی ہے ، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی۔  خطے کے لوگوں کو پورا بھروسہ ہے کہ وہ  حملہ آور  طاقتوں کو گھیرنے ، اپنی مرضی کے تابع کرنے اور  بالآخر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ 
     میں نے اس مضمون کے آغاز میں جو بات کہی تھی  اُسی پر میں اپنا مضمون  ختم کررہا ہوں ۔میں نے تحریر کیا تھا:
      " بے چینی کے حالیہ برسوں نے  خطے کے  نوجوانوں کو  بہت جلد  فراست کی منزل تک پہنچا دیا ہے" ۔

 

شیئر: