Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ تیری رہبری کا سوال ہے‘‘

آج کا انسان احساس ذمہ ادری سے عاری ہوگیا ہے جس کی وجہ سے قیادت و سیادت کا مفہوم بالکل الٹ گیا
* * * محب اللہ قاسمی۔ نئی دہلی* * *
 انسان کی بہت سی ضرورتوں میں ایک اہم ضرورت اجتماعیت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی ہے اور اس میں اس کی مدد بھی شامل حال رہتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
      "جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔‘‘
     اس لئے اجتماعیت سے الگ ہوکر زندگی گزارنا پسندیدہ نہیں ۔ایسی حالت میں خاتمے کو میتۃ الجاہلیہ (جاہلیت کی سی موت) سے تعبیر کیا گیا۔ اجتماعیت ہوگی تو لازما ًاس کا ایک امیر اور سربراہ ہوگا جو اس کی قیادت کا فریضہ انجام دے گا۔ عوام اس کی رہنمائی میں اپنا سفر حیات جاری رکھتے ہوئے منزل کی طرف کامیابی کے ساتھ گامزن ہوں گے۔ قیادت وسربراہی کی اس ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا ارشاد ہے:    "جب 3 آدمی سفرمیں ہوں تو ان میں ایک کو امیربنالیناچاہیے۔" (ابوداؤد)۔
    قوم کا سربراہ اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی خیر خواہی کرنا ،ہر طرح کی ضرویات کا خیال رکھنا اور اس کی بہتری کی فکر کرنا ،اس کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ عین فرضِ منصبی ہے۔ اسے اس کا احساس ضروری ہے۔قوم کے رہبر و رہنما کی حیثیت ایک خادم کی سی ہوتی ہے۔ وہ اپنے اس فرض منصبی کو صحیح طریقہ سے انجام دے تو رعایا اور اس کے ماتحت افراد خوشحال ہوں گے،جانثاری کے جذبے کے ساتھ اپنا ہر طرح کا تعاون پیش کریں گے لیکن اگر اسکے برعکس سربراہ اگر خود کو قوم کا خادم تصور کرنے اور اس کی فلاح وبہبود کا خیال رکھنے کے بجائے مخدوم سمجھ بیٹھے اور آرائش و آسائش کی زندگی کو مقصد بنا لے اور ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘کے مصداق رعایا کے مسائل سے آنکھیں موندلے تو ایسے حالات میں رعایا بے چینی کی کیفیت سے دوچار ہوگی اور بسا اوقات اس سربراہ کیخلاف علمِ بغاوت بلند کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت سے قبل دنیائے انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ ہر طرف ظلم وستم کا بازار گرم تھا، رقص وسرور میں ڈوبے عیش پسند ناعاقبت اندیش رہنماؤں اور بادشاہوں کو عوام کی ذرہ برابر بھی فکر نہ تھی بلکہ وہ وقتاً فوقتاً انھیں اپنے عتاب کاشکار بناتے رہتے تھے مگر یہ بادل چھٹا اور آفتاب کی شکل میں ایک عظیم رہنمانمودار ہوا جس نے لوگوں کو معرفت خداوندی کے ساتھ قیادت وسیادت کے اصول سمجھائے۔ لوگوں کے دکھ درد بانٹ کر انھیں حقیقی زندگی جینا سکھایا اور بتایا کہ بہترین انسان ہی بہتر قائدانہ کردار پیش کرسکتا ہے۔حقیقی قائد وہ ہے جو امانت دار، امن وامان کا خواہاں اور انسانوں کی ضروریات پوری کرنے والا ہو نہ کہ عیش و عشرت کا خواہاں ہو۔ یہ بہترقیادت عملی طور پر کیسے ممکن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی پوری زندگی سے اس سوال کا جواب فراہم کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کا ارشاد ہے
     "تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں باز پرس ہوگی۔"(متفق علیہ)۔
    احساسِ جوابدہی کا یہی وہ محرک تھا جس نے صحابہ کرامؓ  کو ذمہ دارشخصیت بنادیا جو دنیاوالوں کیلئے نمونہ بنے۔ پھر دنیا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ خلفائے راشدینؓ  کا دور بھی دیکھا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓامیرالمومنین ہیں ۔ بیت المال کے موجود ہوتے ہوئے بھی زندگی کسمپرسی میں گزری مگر رعایا کے سرمایہ کو اپنے ذاتی مصرف میں نہیں لائے اور غیر ضروری خرچ سے گریز کرتے رہے۔ انھوں نے پوری دور اندیشی اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیا۔
    قیصر وکسریٰ کو فتح کرنے والے اوروسیع وعریض دنیا میں اسلام کا پرچم لہرادینے والے خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کھجور کی چٹائی پر سوتے ہیں ،جسم پر اس کے نشانات ابھر آتے ہیں۔ ان کی سادگی پر لوگوں کو معلوم کرنا پڑتا تھا کہ امیر المومنین کون ہیں؟ ان کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ وہ رعایا کے احوال سے نہ صرف باخبر رہتے تھے بلکہ ان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے خود پیٹھ پر غلوں کا بوجھ اٹھالیتے تھے کیو نکہ انھوں نے اپنے قائد سرور عالم کو بدست خودخندق کھودتے دیکھا تھا۔
    تاریخ کے اوراق کو مزید پلٹ کر دیکھیں تو تابعین میں عمر ثانی عمربن عبدالعزیز کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ انھوں نے اپنے دورخلافت میں عدل و انصاف کا وہ گراں قدر کارنامہ انجام دیا کہ سینگ والی بکری بھی بغیر سینگ کی بکری کو مارنے سے کتراتی تھی جبکہ ا ن کی جوانی کا وہ دور (جب آپ خلیفہ مقرر نہیں ہوئے تھے) بڑے ہی ٹھاٹ باٹ اور شان وشوکت میں گزر اتھا۔ خوبصورت لباس ، عمدہ خوشبو جسے دیکھ کر لوگ ٹھہر جاتے تھے اور گلی معطر ہوجاتی تھی مگر بحیثیت خلیفہ خود کو خادم کی حیثیت سے پیش کیا کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
    آج کا انسان اپنے اس احساس ذمہ ادری سے عاری ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے قیادت و سیادت کا مفہوم بالکل الٹ گیا ۔ اب قوم کا رہبر اس کی خدمت کیلئے نہیں بلکہ اس (قوم ) سے خدمت وصول کرنے کیلئے اپنی عیاری اور مکاری سے کام لینا ہے۔
    ٹھاٹ باٹ کیلئے بیت المال میں جمع قوم کا سرمایہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔اسکے نتیجے میں انسانیت سوز واقعات سامنے آتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ذہن میں سوال آتا ہے کہ اقتدار بھی کیا چیز ہے ، جس کیلئے لوگ اپنے ضمیر کے خزانے لٹادیتے ہیں۔اب یہ بات رعایا کے ذمہ ہے کہ وہ اپنا ذمہ دار کسے چنتے ہیں اور اتنی بڑی ذمہ داری کس کے سپرد کرتے ہیں کیونکہ یہ قیادت بھی ایک امانت ہے ، جو اس کے اہل تک پہچانا ضروری ہے، قرآن کا اعلان ہے:
    ’’مسلمانو!اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اوریقینااللہ سب کچھ دیکھتاہے۔اے لوگوجوایمان لائے ہو!اطاعت کرو اللہ کی اوراطاعت کرورسول ()کی اوران لوگوں کی جوتم میں سے صاحب امرہوں۔‘‘(النساء59,58)۔
    پھر ذمہ داروں میں اہل شخص اپنی امانت داری اور صلاحیتوں کے ذریعے اعلیٰ اصولوں کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے۔ عوام کی توقع کے مطابق اپنی خدمات انجام دیتا ہے۔ اسکے پیش نظر جہاں احساس ذمہ داری ہے وہیں ایمان کے تقاضے بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:    ’’اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہ ہو اور اس شخص میں دین کا پاس ولحاظ نہیں جس کے اندر عہد کی پاس داری نہ ہو۔‘‘(ابن ماجہ)۔
    دور حاضر میں ہر غیر مذہبی رہنما اور مذہبی رہنماؤں کے طرز زندگی کا جائزہ لیں تو بلادریغ کہا جاسکتا ہے کہ قوم کے مال کا بڑا حصہ غیر ضروری اخراجات اور جھوٹی شان بگھارنے میں صرف کرتے ہیں جبکہ قریب میں رہنے والا غربت اور استحصال کی چکی میں پستا ہے۔
    آج اقتدار کی خاطر جنگ ہوتی ہے، جس کے حصول پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور عام انسانوں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے۔ بڑے بڑے فسادات بھی کروائے جاتے ہیں ،جن میں ہزاروں لوگوں کے ارمان لٹ جاتے ہیں، جانیں تلف ہوجاتی ہیں اور مکان خاکستر کردیے جاتے ہیں۔
    جبکہ پہلے لوگ قیادت کی باگ ڈور کو تھامنے سے ڈرتے تھے۔ خود کو کمزور سمجھ کر ذمہ داری کا بار اٹھانے سے کتراتے تھے۔ کوئی اس کیلئے جلدی تیار نہیں ہوتا تھا حتیٰ کہ ذمہ داری ٹھکرانے کی پاداش میں بادشاہوں کے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑتا تھا۔
     ذرا غور کریں کہ اگر قیادت و سربراہی کا وہی مفہوم آج بھی لیاجاتا جوپہلے سمجھا جاتا تھا اور جواب دہی کا تصور نگاہوں کے سامنے ہوتا تو لازماً قیادت کی جنگ کبھی نہ ہوتی اور ہم وہی دَور دیکھتے جو خلافت راشدہ اور عمربن عبدالعزیز کا تھا۔ کاش ملت کے قائدین اس احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیتے،تو ہم ہر گز یہ نہ کہتے
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

 

شیئر: