Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیر ملکی تارکین، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے

***عبد الستارخان***
سعودی عرب میں مقیم  تارکین وطن اب بہت  جلد تارکین  پردیس ہونے والے ہیں۔2018ء کے آغاز کے ساتھ ہی سعودی عرب میں دہائیاں گزارنے  والے تارکین کو  اندازہ ہوگیا ہے کہ اب کوچ کا   وقت آگیا ہے۔ سعودی عرب میں 6 ہزار ریال تک کی تنخواہ پانے والے تارکین اب اپنے ساتھ فیملیاں نہیں رکھ سکتے۔  مرافقین  فیسوں کے  علاوہ پانی وبجلی اور مختلف  اشیاء پرVAT تارکین پر وہ بوجھ ہے جو قابل برداشت نہیں۔ اس کے علاوہ پٹرول کی قیمت میں جو  اضافہ ہواہے اس کے باعث ضرورت کی دیگر چیزیں مہنگی ہوں گی۔ ابھی مختلف خدمات پر جنوری کے بل نہیں آئے۔  جب یہ آئیں گے  تو اندازہ  ہوگا کہ  زندگی کس قدر مہنگی ہوگئی ہے۔تارکین کو  نکالنے پر خود کمپنیاں مجبور ہوجائیں گی جب  انہیں اقامہ تجدید کرتے ہوئے ان کی فیسیں ادا کرنی ہوں گی۔ ان تمام حالات کے باعث  ماہرین کا خیال ہے کہ 2018ء تارکین وطن کی بڑی تعداد کی واپسی کا سال ہے۔
سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے کئی مسائل مشترک ہیں۔ یہاں رہنے  والے لوگ  دو طرح کے ہیں، ایک فیملی  والے اور دوسرے وہ  جو مجرد  رہتے ہیں۔ حالات نے جہاں فیملی والوں کو  واپس جانے پر مجبور کردیاہے  وہاں مجرد  بھی  واپس جارہے ہیں۔  دونوں قسم کے لوگوں کے مسائل کی نوعیت مختلف ہے مگر  دونوں کو یکساں قسم کے معاشرتی، معاشی اورثقافتی مسائل کا سامنا ہوگا۔  افسوس اس  بات پر ہے کہ حکومت پاکستان نے لاکھوں کی تعداد میں  واپس آنے  والوں کیلئے کوئی منصوبہ نہیں بنایا نہ  موجودہ  حالات میں  وہ بناسکتی ہے۔ یہ  بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ کئی دہائیاں سعودی عرب میں گزار کر جب تارکین واپس جائیں گے تو انہیں وہ ماحول نہیں ملے گا جو پہلے ان کی موجودگی میں تھا۔ معاشرہ تبدیل ہوچکاہے، اقدار بدل چکی ہیں اور خود ان کے اپنے بھی بدل گئے ہیں۔ 
مزید پڑھیں:نصف صدی گزارنے والے تارکین کی واپسی
پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جو کئی دہائیوں سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ ان کے بچے یہیں پیدا ہوئے، یہیں پرورش پائی اور یہیں تعلیم حاصل کی۔ پاکستان کا ماحول چھٹیوں کے دوران مختلف ہوتا ہے اور بچوں کو اچھا بھی لگتا ہے مگر یہی بچے جب مستقل طور پر وہاں جاکر آباد ہوں گے تو انہیں کئی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ معاشرہ مختلف ہوگا، رشتہ داروں کا  رویہ اور ہوگا، اسکول ، محلہ اور لین دین کا طرز جدا ہوگا۔ چھٹیوں کے دوران جو رشتہ دار خدمت میں آگے پیچھے ہوتے ہیں ، جب انہیں معلوم ہوتاہے کہ سعودی عرب سے مستقل  واپس آگئے ہیں تو ان کا طرز عمل بالکل مختلف ہوجاتاہے۔  یہ  وہ معاشرتی صدمے ہیں جو گھر کے تمام افراد کو برداشت کرنے پڑیں گے  جو آدمی زندگی بھر کی پونجی لے کر واپس جاتا ہے  وہ چاہتا ہے کہ اب اس رقم کو کسی مصرف میں لگا کر اس سے زندگی کے باقی ایام آرام سے گزارے جائیں مگر اس کی جمع پونجی کو سب سے پہلے رشتہ دار حریص نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جو آدمی سعودی عرب کے ماحول میں 20،30سال ملازمت کرکے واپس جاتا ہے  وہ وہاں کسی جگہ ملازمت کے قابل نہیں ہوتا۔ لازماً   اسے کوئی کاروبار کرنا ہوگا مگر پاکستانی تاجروں جیسا انداز نہیں آتا۔  یقینا اسے نئے ماحول میں خود کو  ایڈجسٹ کرنے میں کافی وقت لگے گا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ  اس امتحان میں پاس ہونے والے بہت ہی کم ہیں۔
دوسرے قسم کے لوگ جو زندگی بھر یہاں مجرد رہے اور گھر والوں سے ان کا رشتہ سال میں محض ایک مہینہ کا تھا یا پھر دن میں ایک آدھ گھنٹہimo  یا WhatsApp پر رابطہ رہتا تھا ، یہ شخص جب مستقل طور پر اپنے گھر جانے کا فیصلہ کرتا ہے تو چند دنوں کے بعد ہی محسوس کرلیتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں اجنبی ہے۔ شاید اسے معلوم نہیں کہ چھٹیوں کا ایک مہینہ بھی بچوں  پر گراںگزرتا تھا اور ایک ،دو دن بھی اوپر ہوجائیں تو بچے اماں سے پوچھتے تھے کہ بڈھا کب جائے گا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بچے نسب میں  تو اس کے ہیں مگر حقیقت میں نہیں۔ جب کھیلنے کودنے کے دنوں میں انہیں ابو کی ضرورت تھی تو اس وقت ابو  سعودی عرب میں تھے۔ جب ٹانگوں سے لپٹ کر  فرمائشیں پوری کروانے کا  وقت تھا، جب بخار میں تپتے وقت باپ کی شفقت کی ضرورت تھی، جب انگلی پکڑکر چلنے کی ضرورت تھی، اس وقت تو ابو موجود نہیں تھے۔ اب جب انہیں ابو کی نہیں ابو کے پیسوں کی ضرورت ہے تو بڑے میاں گھر میں بیٹھ کر حکم چلانے آگئے ہیں۔ یقینا گھر والوں کیلئے یہ بات ناقابل برداشت ہوگی۔اس قسم کے لوگوں کیلئے معاشرتی طور پر نئے ماحول میں خود کو ایڈ جسٹ کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اس امتحان میں پاس ہونے والے چند ہی ہیں۔سعودی عرب میں کئی عشرے گزرانے والے تارکین وطن خود اپنے ملک میں ہی نہیں اپنے گھر میں اجنبی بن جاتے ہیں۔ 
مزید پڑھیں:ضابطوں سے عاری اختلاف ، تلخیوں کا سبب
شر کے  بطن سے خیر کا کوئی پہلو ہے ؟یقینا ہے، ہمارا رب رحیم ہے، کریم ہے۔ وہ ہمارے لئے بہترین فیصلے کرتا ہے مگر ہمیں اندازہ نہیں۔ سعودی عرب کے حالات غیر ملکیوں کیلئے یقینا ناساز گار ہوگئے ہیں مگر ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ جو  رب ہمیں یہاں رزق دے رہا ہے  وہ  وہاںبھی دے گا بلکہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے  وہاں ہمارے مقدر میں لکھا ہوا  رزق ہمیں ضرور ملے گا۔  یہی  تو اصل امتحان ہے ۔ سعودی عرب کو  چھوڑنا یقینا سب پر  شاق ہے  اور ایک نئے ماحول میں ایڈ جسٹ ہونا یقینا بہت مشکل ہے مگر کیا پتہ  اسی میں ہمارے لئے بہتری ہو۔  ہم اللہ کی تقدیر پر راضی ہوں اور یقین رکھیں کہ  رزق کے دروازے سعودی عرب تک محدود نہیں بلکہ اصل رزاق  تو اللہ تعالیٰ ہے۔  یہ یقین جس دن پیدا ہوجائے  تو وہ  رزاق ہمیں وہاں سے رزق دے گا جہاں سے ہمارا گمان بھی نہیں ہوگا۔ ایسا بارہا  ہوا ہے  اور ہمارے مشاہدے میں بھی ہے  باپ یہاں زندگی بھر کماتا رہا، بوڑھا ہوگیا تو بیٹے کو بلا لیا۔اب بیٹا باپ کی تاریخ دہرا رہا ہے۔ جب  وہ بوڑھا ہوگا تو وہی کرے گا جو باپ نے کیا مگر آخر کب تک؟ باپ یہاں 30سال سے بچوں کے ساتھ مقیم ہے، باپ ریٹائر ہوگیا، بیٹے کی شادی کروائی، اب بیٹا اپنی فیملی کے ساتھ یہاں ہے اور  وہی کمارہا ہے۔ جب  وہ بوڑھا ہوگا تو ویسا ہی کرے گا جو باپ نے کیا، مگر آخر کب تک؟ سعودی عرب میں غیرملکیوں کیلئے تنگ ہونے والے حالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے  جو شخص اس آزمائش میں پورا اترے گا ، اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ  اللہ تعالیٰ اس کیلئے غیب کے خزانے کھول دے گا اور جو حالات کو کوستا رہا اور  رزق کو  اپنی نوکری یا سعودی عرب میں قیام سے جوڑتا رہا  تو وہ ناکام  ونامراد ہوگا۔ اس شر کے بطن سے خیر کے کئی پہلو نکلیں گے ،  بس اپنے  رب سے حسن ظن رکھیں۔
 
 
 

شیئر: