بلوچستان میں قتل ہونے والے نو مسافروں کی لاشیں ضابطے کی کارروائی اور شناخت کے بعد ان کے آبائی علاقوں کو بھجوا دی گئی ہیں۔
جمعرات کی شب لورالائی اور موسیٰ خیل کے درمیان این-70 قومی شاہراہ پر سرہ ڈاکئی کے مقام پر مسلح افراد نے مسافروں کو بسوں سے اتار کر گولیاں مار کر قتل کیا۔
این-70 قومی شاہراہ کوئٹہ کو ڈیرہ غازی خان سے ملاتی ہے اور اس شاہراہ پر پچھلے ایک سال میں اس طرز کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔
مزید پڑھیں
حکام کے مطابق ’لورالائی کے قریب ضلع ژوب میں نامعلوم مسلح افراد نے بسوں کو روک کر شناخت کے بعد کم سے کم نو مسافروں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔‘
لاشیں بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے رکھنی کے ایک سرکاری ہسپتال منتقل کی گئی تھیں جن کو ضابطے کی کارروائی اور شناخت کے بعد پنجاب میں آبائی علاقوں کی طرف روانہ کر دیا گیا ہے۔
مقتولین کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں اٹک، گجرات، خانیوال، گجرات اور ڈیرہ غازی خان سے تھا- قتل ہونے والوں میں ضلع لودھراں کے علاقے دنیا پور کے رہائشی دو سگے بھائی عثمان نذیر طور اور جابر نذیر طور بھی شامل ہیں-
کمشنر لورالائی ڈویژن سعادت حسین نے اردو نیوز کو تصدیق کی تھی کہ ’9 مسافروں کی لاشیں مل گئی ہیں جنہیوں گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔‘
کمشنر کے مطابق ’ابتدائی طور پر بسوں کے ڈرائیوروں نے انتظامیہ کو اطلاع دی تھی کہ مسلح افراد نے دو بسوں کو روکا، مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے اور کچھ افراد کو زبردستی ساتھ لے گئے۔ اس دوران بس کے مسافروں نے فائرنگ کی آوازیں بھی سنیں۔‘
’اس اطلاع کے بعد سکیورٹی فورسز اور ریسکیو علاقے کی طرف ٹیمیں بھیجی گئیں اور سرچ آپریشن بھی کیا گیا- بعد ازاں ان افراد کی لاشیں قریبی علاقے سے برآمد ہوئیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ جس جگہ یہ حملہ ہوا وہ لورالائی کے علاقے میختر کے قریب ہے، تاہم انتظامی طور پر ضلع ژوب کی حدود میں آتا ہے۔ ژوب کا ضلعی ہیڈکوارٹرز وہاں سے کافی دور ہے اس لیے لورالائی اور موسیٰ خیل کی ضلعی انتظامیہ کارروائی کر رہی ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے ایک بیان میں حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’فتنہ الہند کے دہشت گردوں نے سرہ ڈھاکہ (سرہ ڈاکئی) مستونگ، قلات اور کوئٹہ میں حملے کیے جن کا سکیورٹی فورسز نے فوری جواب دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’واقعے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر دہشت گردوں کا تعاقب کیا۔ دہشت گرد رات کی تاریکی میں فرار ہوئے، اُن کا تعاقب جاری ہے۔‘

شاہد رند کے مطابق ’حملہ پاکستان کے امن اور یکجہتی پر حملہ ہے، دشمن کی چال ناکام بنائیں گے اور ریاست دشمن عناصر کو عبرتناک انجام تک پہنچایا جائے گا۔‘
کمشنر لورالائی ڈویژن سعادت حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بس ڈرائیوروں نے لورالائی پہنچ کر انتظامیہ کو اطلاع دی کہ مسلح افراد نے اسلحے کے زور پر بسوں کو روکا اور کچھ مسافروں کو شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد اغوا کر لیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’عوام کی جان و مال اور املاک کی حفاظت کے لیے فورسز مکمل طور پر الرٹ ہیں۔‘
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی اسی شاہراہ پر مسافروں کے اغوا اور قتل کے دو بڑے ہولناک واقعات پیش آچکے ہیں۔
رواں سال فروری میں موسیٰ خیل سے متصل بارکھان کے علاقے رڑکن میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 7 مسافروں کو لاہور جانے والی بس سے اُتار کر قتل کیا گیا۔
ایک اور واقعے میں گذشتہ سال اگست میں لورالائی اور موسیٰ خیل کے درمیان راڑہ شم کے مقام پر 22 مسافروں کو اِسی طرز پر قتل کیا گیا۔