Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خالی پلاٹ پر ٹیکس

منگل 23جنوری 2018ءکو سعودی عرب سے شائع ہونےوالے اخبار ”الاقتصادیہ“ کا اداریہ

سعودی عرب میں غیر منقولہ جائداد وں کی مارکیٹ طلب و رسد میں عدم توازن کے مسائل سے دوچار تھی اور اب بھی ہے۔ اسکی وجہ سے پلاٹوں کے نرخ ریکارڈ شکل میں بڑھے ۔ ماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ اسباب بہت سارے ہیں۔ ایک سبب یہ ہے کہ زمینیں خرید کر چھوڑ دی گئیں۔ انہیں عصری سہولتوں سے آراستہ کرنے کا سلسلہ ترک کردیا گیا۔ بعض لوگوں نے زمینوں کا کچھ حصہ استعمال کیا اور دیگر کو خالی چھوڑ دیا۔آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ سرکاری فنڈ ہر ایک کو مکان بنانے کیلئے قرضے دینے کے اہل نہیں رہے۔2017ءکے دوران خالی پلاٹ پر ٹیکس پروگرام جاری ہوا۔ ریاض، جدہ اور دمام جیسے شہروں پر اسے مرحلہ بہ مرحلہ لاگو کیا گیا۔ وزارت آباد کاری نے 400ملین مربع میٹر رقبے کے پلاٹوںسے ٹیکس صول کرنے کیلئے 1500آرڈر جاری کئے۔
اہم بات یہ ہے کہ خالی پلاٹس پر ٹیکس کی افادیت کا تجزیہ اصولی بنیادوں پر کیا جانا ضروری ہے۔ یہ پتہ لگایا جائے کہ آیا اس ٹیکس کی بدولت زمینوں پر قبضہ جمائے رکھنے اور پلاٹس کے کاروبار کی اجارہ داری کا مسئلہ حل ہوا یا نہیں یا کس حد تک حل ہوا۔
لائحہ عمل کے مطابق وزارت آباد کاری کو اس امر کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ ہر شہر کی صورتحال کا جائزہ لیتی رہے۔ یہ کام مقررہ نظام الاوقات کے مطابق انجام دے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر منقولہ جائدادوں کی مارکیٹ کا ہمہ جہتی واضح تصور حاصل کیا جائے۔ پتہ لگایا جائے کہ کس حد تک اجارہ داری برقرار ہے۔ پلاٹس کے نرخوں میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ کیا ٹیکس کے براہ راست اثرات نمودار ہوئے ہیں۔ آیا اب تک کا تجزیاتی نظام موثر تھا یا اسے موثر بنانے کیلئے تبدیلی کی ضرورت ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: